Friday, 01 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Neelgon Panion Ka Safar (4)

Neelgon Panion Ka Safar (4)

نیلگوں پانیوں کا سفر (4)

خیر جی لوگوں سے بچتے بچاتے جب ہم لاونج میں پہنچے تواس وقت پاکستانی وقت کے مطابق صبح کے 6 بجکر 30 منٹ ہو رہے تھے۔ میں نے لاونج میں کاونٹر پر کھڑے ڈیوٹی پر موجود نمائندے سے پوچھا کہ مجھے اب کچھ دیر بعد اگلی فلائٹ سے جانا ہے تو میرا سامان کدھر سے ملے گا؟ اس نے مجھے دیکھا، مجھ سے ٹکٹ مانگی اور بتایا کہ سامان آپکا آپکو مالدیپ جا کر ہی ملے گا۔۔ یہ سن کر مجھے سکون سا آ گیا کہ چلو اچھا ہے اب مجھے سوٹ کیس نہیں لے لے کے گھومنا پڑے گا۔۔

پوری رات ہوگئی تھی مجھے اس سفر میں اور گھر سے نکلے ہوئے۔ مجھےاب ہلکی سی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی تو تھوڑا سا اپنے آپ کو تازہ دم کرنے کے لیے میں خواتین کے لیے مختص ٹائلیٹ کی طرف چلی گئی اور وہاں جاتے ہی میری طبیعت بحال سی ہوگئی انکی صفائی ستھرائی دیکھ کر۔ فرش پر کہیں بھی پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا ہوا تھا اور نہ ہی کسی ٹونٹی سے پانی لیک ہوتا نظر آیا۔ میں نے آرام سے منہ ہاتھ دھو کر، دوبارہ وضو کیا۔ حیرت اس بات کی تھی کہ باہر سے دروازہ بھی نہیں توڑ رہا تھا، لگتا تھا کوئی جانا ہی نہیں چاہتا تھا بس میں ہی تھی جو تازہ دم ہونے کی خواہش مند تھی۔ تسلی سے میں اپنا بیگ اٹھائے باہر آگئی۔

کچھ کھانے کی شدید طلب ہو رہی تھی مگر اس طلب کو دل میں دباتے ہوئے میں نے سوچا پہلے تھوڑا ائیرپورٹ کو دریافت کر لیاجائے۔ ائیرپورٹ کی فضا قدرتی طور پر کچھ گرم جوش سی محسوس ہو رہی تھی جیسے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ یہاں چار سو گرما گرم کافی کی دل کو لبھانے والی مہک تھی تو کہیں گرم بن بنننے کی مزیدار خوشبو پھیلی ہوئی تھی جس سے میری بھوک ایک دم چمک اٹھی تھی۔

میرے بالکل سامنے مشہور زمانہ ہیرڈز تھا جسکی حفاظت باہر کھڑا ایک بڑا سا کھلونا نما بندر کر رہا تھا جس نے سر پر ٹوپی رکھی ہوئی تھی اور اندر ہیرڈز والے مہنگی مہنگی چیزیں بیچ کر لوگوں کو ٹوپیاں پہنا رہے تھے۔ اسکے شیشوں والے شوکیس قسم قسم کی پیسٹریز اور براونیز سے اٹے پڑے تھے۔ جو لوگ اندر نہیں جانا چا رہے تھے وہ باہر کھڑے خوشبووں سے اپنا دل لبھا رہے تھے۔۔ دل تو میرے میں بھی آیا کہ کچھ دیر کو چھوٹے بچوں کی طرح اسکے یخ بستہ شیشوں سے ناک چپکا لوں۔۔ بھلے نہ کھاوں کچھ یہاں سے مگر تخیل میں تو کھانے کا ذائقہ میری زبان پر تھوڑا بہت آ ہی جا ئے گا۔ مگر واہ رے، اے عمر رفتہ! "کاش کے جی لیتے تجھے کچھ اور دن ہم " کی سوچ دل میں ایک دم سے ابھری جسے تھپکتے ہوئے میں وہاں سے آگے چل دی۔

ہیرڈز کی مخالف سمت، سامنے کی طرف سٹار بکس تھا جدھر کافی اور کپ کیکس ہم جیسے بھوک کے کچے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہے تھے اور ان دونوں کے بلکل بیچوں بیچ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، جیسے ہمارے ہاں چوکوں میں کچھ ہو تو لوگ جمع ہو جاتے ہیں تماشہ دیکھنے تو ایسا ہی کچھ یہاں بھی لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا میں بھی آگے جا کے دیکھوں تو آخر کیا ہو رہا ہے؟ تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا بھالو لیمپ میں سر پھنساکر بیٹھا تھا۔۔ پتہ نہیں بیٹھا تھا کہ اس میں گرنے سے پھنسا ہوا تھا۔ آیا کدھر سے تھااور یہاں ٹھس سا ہو کے جم کیوں گیا تھا، سمجھ سے باہر تھا۔۔ لوگ اس کے آگے کھڑ ے تصاویر بنوا رہے تھے۔۔ میں نے بھی ایک معصوم سے چینی کو پکڑا اور بولا میری فوٹو لے لیں پلیز۔۔ اسنے کافی زیادہ لے لیں اور مسکرا کے مجھے فون واپس کرکے پھر اپنا فوٹو شوٹ کرنے لگا۔

ہر شخص اپنے میں ہی گم تھا، اپنی ذات میں محو، اپنے خیالوں میں مگن۔ سب لوگ اپنی ہی دھن میں چلے جا رہے تھے پتا نہیں کدھر کو؟ زیادہ تر یہاں گورے ہی گھوم رہے تھے یا چینی اور ان سب میں ایک میں، جو گول گول گھوم رہی تھی اپنی ہی خواہَشوں کے خوش کن بگولے میں یا شاید امیدوں کے جگنووں کے پیچھے اور یا پھر خوابوں کے تانے بنے بنتی اپنے لا شعور میں بنے خواب نگر کے گہرے بادلوں میں۔۔

میں نے بھی جیسا دیس ویسا بھیس کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے چائے کا کپ اور ساتھ ایک بن لیا اور ایک ریک لاینر (ریکلاینر) پر دھنس سی گئی یا جان بوجھ کر لوگوں سے چھپنے کے لیے اسکی پناہ ڈھونڈی اور پھر آتے جاتے لوگوں پر غور کرنا شرو ع کر دیا جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔۔ کہیں تو کوئی بچہ رو رہا تھا تواسکی ماں اسے گھسیٹے گھسیٹے پھر رہی تھی۔ کوئی فون پر لگا ہوا تھا تو کوئی صوفے پر سو رہا تھا۔۔ ایک جگہ سے کافی اونچی موسیقی کا شور آ رہا تھا۔ اس کی باہر سموکنگ زون کا بورڈ لگا تھا اور سب اس کے اندر بھاگے بھاگے جا رہے تھے، دھویں میں اپنے اپنے غم غلط کرنے کیونکہ غور کرنے پر پتا لگا تھا کہ یہ تو سموکرز کے لئے ہے کہ آؤ بھئی اندر چلے آؤ اور آرام سے کش لگاؤ۔

میں نے سکون سے اپنا کھانا پینا ختم کیا اور پھر گھڑی پر دیکھا تو ابھی کچھ وقت باقی تھا۔۔ سموکنگ زون میں موسیقی، دھواں، اور کش لگانے والوں کے سب دکھ، سب فکریں مدغم ہوئے جاتے تھے۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوٹی فری شاپ پر جھانکا جائے اور میں سوچ کے تو گھر سے آئی تھی کہ خریدنا کچھ نہیں۔۔ پتہ نہیں اس سوچ کے بعد قہقہے کی آواز کدھر سے آئی تھی، شاید کان بجے تھے۔ خیر لائین سے 2-3 دکانیں تھیں جدھر انواع و اقسام کی چیزیں تھیں۔ بھانت بھانت کے لوگ، انکی فرمائشیں اور انکو پورا کرنے میں ہلکان ہونے والا وہاں کا اسٹاف۔۔ میں نے گھوم پھر کے سب چیزیں دیکھیں، سب کی قیمت یا تو ڈالرز میں تھی اور یا قطری ریال میں اور اسے پاکستانی روپوں میں تبدیل کرنے کے بعد مجھے اب سمجھ آ گئی تھی کہ میں نے واپسی پر کیا کیا لینا ہے؟ اور آنا بھی پھر اکیلے تھا تو میرا کچھ لینے کا راز راز ہی رہنا تھا جس کا پتہ باقیوں کو گھر جا کر ہی لگنا تھا۔۔

پرفیوم سے لے کر چاکلیٹ، ٹافیز اور وہ سب جو مجھے لینا تھا سب کی ذھن میں تصویر بنا لی تھی لینا مگر واپسی پر تھا۔ باہر نکل کر میں نے پھر ادھر آنے کا راستہ اچھے سے ازبر کیا تاکہ واپسی پر میرا وقت نہ برباد ہو اور میں فٹافٹ جو لینا ہو، سب لے لوں۔ اب میں نے جب دوبارہ گھڑی دیکھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ دیر ہو رہی ہے اب مجھے جانا چاہئے۔۔ میں نے ٹکٹ پر دیکھا تو اس پر لاونج D لکھا ہوا تھا۔ میں بورڈز پر دئیے گئے نشانات کو پڑھ پڑھ کر چلتی جا رہی تھی۔ برقی زینے سے اتر کر سامنے کےطرف پھر بورڈز پڑھے۔۔ چل چل کر اب میری ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔

سامنے ایک سفید کارٹ تھی جیسے گالف میں استعمال ہوتی ہے مگر یہ تھوڑی بڑی تھی اور مسافروں کو ادھر سے ادھر لے جا رہی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ جو میرے سامنے سے گزر رہی تھی وہ میری طرف آنے کی بجائے مخالف سمت جا رہی تھی خیر اتنے میں میری طرف کو ایک آہی گئی۔ میں جلدی اس میں سوار ہوگئی اور اس نے مجھے کچھ آگے جا کے اتار دیا اس سے آگے میں نے پھر ائرپورٹ پر موجود سیکورٹی اہلکار سے پوچھا اب کدھر جاوں؟ اس نے بولا کہ سامنے سے جو ٹرین آ رہی ہے اس میں بیٹھو تو وہ تمھیں D والے لاونج کے آگے اتار دے گی اور ذرا جلدی کرلو تمھارے پاس وقت کم ہے۔ خیر بھاگم بھاگ ٹرین تک پہنچی اور اس میں سوار ہوگئی۔۔

اس میں میرے علاوہ کچھ لوگ اور بھی تھے مگر وہ سب تسلی سے تھے یعنی ابھی انہوں نے اسميں اور گھومنا تھا۔ ٹرین کی رفتار کافی تیز تھی اور بمشکل 2-3 منٹ ہی ہوئے ہونگے تو اعلان ہوگیا D لاونج کے آنے کا۔ میں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے خودکار دروازے کھلتے ہی میں باہر نکل آئی۔ لگ رہا تھا کہ کسی جگسا پزل میں پھنس گئی ہوں۔ اب میرے سر پر پھر سفر سوار ہو چکا تھا اور بوکھلاہٹ میں میرے ذہن سے یہ نکل ہی گیا کہ جانا کس طرف ہے؟ کیا نیچے والی سیڑھی کی طرف جانا ہے یا پھر سامنے کی طرف شیشے کے دروازوں کے اس پار جانا ہے؟ میرے پاس وقت کم تھا اور غلطی کی گنجایش بھی نہ تھی۔ دیر ہونے کی صورت میں جہاز نکل جاتا اور پھر اگلے جہاز میں جانے کا مطلب تھا دوبارہ سے ٹکٹ لینا اور یہ سوچ ہی میرا دل دہلانے کو کافی تھی۔

سارے نوٹ میرے سامنے گول گول گھومنے لگے جو دوبارہ ٹکٹ لینے کی صورت میں مجھے دینے پڑتے۔ میں تو جیسے بھول بھلیوں میں گھوم رہی تھی یہاں نیچے کے لاونج کی بنسبت کافی خاموشی تھی۔ سامنے سکرین پر تمام فلایٹس کے شیڈول ان کے اوقات کے ساتھ درج تھے اور اسکے مطابق میری والی فلایٹ بس اڑان بھرنے ہی والی تھی۔۔ میں نے سامنے سے گزرنے والے ایک سیکورٹی اہلکار سے ٹکٹ دکھا کر پوچھا کہ یہ فلائٹ، ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ وہ مجھ سے بھی زیادہ پریشان نظر آیا۔ وہ زور سے چلایا جلدی بھاگو، یہ اعلان تمہاری ہی فلائٹ کا ہے اور اسکی بورڈنگ ہوگئی ہے، یہ آخری اعلان ہو رہا ہے اور بس پھر جیسے کوئی اپنی زندگی کے لئے بھاگتا ہے ویسے ہی میں ہاتھ میں پاسپورٹ اور ٹکٹ لئے بھاگ رہی تھی اور جیسے جہاز کے عملے سے کہہ رہی تھی کہ رکو، رکو۔۔ مجھے تو ساتھ لے لو، مجھے تو ابھی پانیوں کا شہر دیکھنا ہے۔۔ سمندر کے اس پار جانا ہے جہاں کوئی میرا راہ تکتا ہوگا، چپ چاپ کام میں مگن، گہرے پانیوں کے بهيد سی خاموشی لیے۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Retirement Ka Almiya

By Arshad Meraj