Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Neelgon Panion Ka Safar (2)

Neelgon Panion Ka Safar (2)

نیلگوں پانیوں کا سفر (2)

اگلے بہت سے سرد دن اپنی تمام تر سرد مہر، بوجھل اور خاموش شاموں کو اپنے اندر سموئے اسی جانے جانے اور اسکی تیاریوں کی نذر ہوگیے۔ جب آپ نے سفر پر جانا ہوتا ہے تو اس سے پہلے آپ کو اپنے بہت سے بھولے بسرے نا مکمل کام یاد آ جاتے ہیں جن کو جانے سے پہلے آپ نے لازمی کرنا ہوتا ہے تو وہ سب کرنے میں کافی مصروف شب و روز گزرے۔

کچھ لوگوں کے لیے سفر پر جانا بالکل ایسے ہے جیسے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا تو ایسا ہی کچھ حال ہمارے گھر والوں کا بھی ہے۔ بس انہوں نے اپنی ضرورت کی کچھ ٹی شرٹس اور جینز رکھیں، اپنے فونز، چارجر، لیپ ٹاپ رکھا، اور جناب میری شکل دیکھ کر شاید کچھ اندازہ لگا لیا تھا جبھی بولے کہ ابھی مجھے تو جانے دو پھر کرتے ہیں کچھ اور دوبارہ مجھے یہ کہہ کر دلاسہ دیا کہ میں جا کے دیکھتا ہو کیا حالات ہیں؟ اگر مجھے لگا کہ ٹھیک ہے سب اور تمہیں بلایا جا سکتا ہے تو پھر تم بھی آجانا مگر دیکھ لینا کہ پھر خود ہی اکیلے آنا ہوگا اور فلائیٹ بھی سیدھی نہیں آ تی ہے، راستے میں ٹرانزٹ ہوگا اور دوسری فلائٹ لینی ہوگی۔

میں نے سنی ان سنی کر دی کیونکہ جس راہ نہیں جانا اسکا پتہ پوچھنا بیکار تھا۔ جب طے تھا کہ انکو میرے بغیر ہی جانا تھا تو پھر دل کوتو سمجھوتہ کرنا تھا چاہے جو بھی ہو۔ بس پھر بیچ کے دن تو مانيں یوں گزرے جیسے انہیں پر لگ گئے ہوں۔ آخر کار وہ دن بھی آ گیا جس دن انہیں روانہ ہونا تھا۔ بچوں سے مل ملا کے انکی فرمائشی فہرست پوچھ کر وہ اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔ شام تک رابطہ ممکن نہ ہو سکا کیونکہ انہیں دبئی میں 4 گھنٹے رکنا تھا اور بس دبئی پہنچتے ہی انہوں نے وہاں سے بتلا دیا کہ اب اگلی فلائیٹ کا انتظار ہے۔ رات گئے میسج آ گیا انکا پانیوں کے شہر پہنچنے کا۔۔

اگلی صبح تھوڑی زیادہ سرد مگر پر سکون تھی کہ رات وقفے وقفے سے ہونے والی بارش اب تھمی ہوئی تھی۔ باورچی خانے سے اٹھنے والی خستہ پراٹھوں کی اشتہاء انگيز خوشبو، سبز الائچی کی دم والی چائے اور خنک ہوا جس میں کہیں کہیں گیلی مٹی کی آمیزش تھی کے ساتھ مل کر بڑی بھلی محسوس ہو رہی تھی۔ اتنے میں موبائل بز بز بجنا شروع ہوا اور میں نے دیکھا کہ انکی ویڈیو کال ہے۔ جلدی سے اٹھائی تو سلام کے بعد سنائی دیا، یہ لو تم بھی دیکھو، تو کیا دیکھا کہ بالکونی جہاں سے مجھ سے بات کی جا رہی تھی اسکے بالکل سامنے چند قدم کے فاصلے پر سمندر ہے۔ یہ جھاگ اڑاتا پانی، نیلا آسمان اور نیلگوں پانی اور کہیں برف کی طرح سفید پانی اور اسکی لہروں کی آواز۔ بے اختیار منہ سے نکلا واہ اللہ! تیری قدرت۔

پانی کی صفت کیونکہ ٹھنڈک اور پاکیزگی کی ہے تو اس کا ایک قدرتی اثر آ پکی ذات میں در آنے والے سکون کی شکل میں محسوس ہوتا ہے اور نظر بھی آتا ہے۔ لَہروں کے شور کے ساتھ ہی انکی آواز کانوں سے ٹکرائی۔۔ کیا ہو رہا تھا؟ دل تو کیا بولوں جشن مانا رہے ہیں مگر چپ رہنے میں عافیت سمجھی اور ان کے بولنے کا انتظار کیا۔ پھر بولے میں سوچ رہا ہوں تم بھی آ جاو یہاں۔ کچھ دن رکو، گھوم پھر لو پھر ساتھ ہی واپس آ جائیں گے۔ مگر دیکھ لینا میں مصروف ہوں گا تو تم یہ نہ ہو اس بنچ پر بیٹھ کر واپس چلی جاو اور ساتھ ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے ساحل سمندر پر رکھا لكڑی کا بنچ دکھایا۔

مجھے کچھ زیادہ ہی ہلکا لے رہے تھے وہ۔ میں نے بولا اتنی حسین جگہ پر بینچ پر بیٹھنا بھی منظور ہے۔ انہوں نے بولا چلو پھر تیاری پکڑو اور آجاو۔ بس پھر کچھ نہ پوچھیں تھوڑی دیر کو تو جیسے لگا سانس ہی رک گئی ہے۔ خیر پھر انہوں نے تفصیل بتائی کہ پاسپورٹ نکال لو اپنا۔ ٹکٹ دفتر والے تمہارا کروا دیتے ہیں مگر۔ اب یہ پھر "مگر" آ گیا میں نے بولا اب کیا ہے؟ بولے کورونا کا ٹیسٹ کرا لینا کیونکہ یہ ایئر پورٹ پر سختی کرتے ہیں۔ میں نے بولا کروا لوں گی اور میں نے رات ہی کو ٹیسٹ کروا لیا اور اگلے دن رپورٹ بھی لے لی جو کے نیگیٹو تھی یعنی کورونا کو میرے جانے پر مطلق اعتراض نہ تھا۔ یوں کر کرا کے دو دن بعد میری روانگی تھی مگر رات کی فلائٹ مل رہی تھی اوردوسری مشکل یہ تھی کہ مجھے براستہ قطر جانا تھا اور دوحہ ایئر پورٹ پر 4 گھنٹے رکنا بھی تھا۔

خیر اب واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا اور مجھے جانا ہی جانا تھا کیونکہ شوق کا کوئی مول نہیں اور بھلے رات میں ائیرپورٹ نظر آتا نہ آتا، مگر جانا تھا۔ تو جناب میں نے جلدی جلدی پیکنگ کی اور اگلی صبح میری ٹکٹ بھی مجھے مل چکی تھی جس کے مطابق میری ہفتہ کی رات کی فلائیٹ تھی۔ خیر گھر سے نکلی، دل پکّا کرکے کہڈر نے والی کیا بات ہے؟ سب ہی اکیلے سفر کرتے ہیں تم انوکھی خَاتون تو نہیں ہو۔ ائیرپورٹ پر پہنچی تو لگتا تھا دوحہ جانے والی ایک ہی خاتون ہوں باقی سب تو وہی تھے جو اپنی اپنی چھٹی گھر گزار کر واپس جا رہے تھے اور ایک میں تھی جو چھٹی کو گزارنے جا رہی تھی۔

خیر پہلے تو ڈیوٹی پر موجود افسر نے سوالات شروع کیے کہ آخر رات کے اس پہر مجھے کیا سوجھی کہ میں سفر پر ا کیلے جا رہی ہوں۔ میں نے بتایا کہ آپ فکر مند نہ ہوں میں اپنے گھر والے کے پاس جا رہی ہوں۔ اب وہ اور فکرمند ہوئے کہ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں پھر انہیں تفصیل بتائی کہ کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر انہوں نے بولا انکا پاسپورٹ بھی دیکھیں گے ہم اور میرے پاس فون میں اسکی تصویر تھیں جو میں نے انھيں دکھا دیں۔ ابھی بھی وہ مشکوک ہی تھے پتہ نہیں میرا دیسی حلیہ انہیں مشکوک لگ رہا تھا یہ رات کا یہ پہر۔ تھا ہی ایسا خاموش اور مشکوک کرنے والا۔

رات کے وقت تو آپ کو وہم بھی عجیب ہی آتے ہیں جو شاید ان صاحب کو آ رہے تھے غیب سے۔ مالدیپ کا ویزا کیونکہ ایئرپورٹ پر ہی ملتا ہے تو اس لیے انکو ہوٹل کی بکنگ سے لے کے ڈالرز تک کی سب تفصیل بتانی پڑی اور لینے کون۔ آئے گا یہ بھی۔ بھلا یہ بھی کوئی سوال۔ تھا اب مجھے مالدیپ کا وزیراعظم تو لینے آنے سے رہا۔ انکے تابڑ توڑ سوالات سے بس مجھے یہی لگ رہا تھا کہ وہ اب بولیں گے رکیں، میں آپ کو چھوڑ کر ہی آجاتا ہوں آپ اکیلے کیسے جائیں گی؟ خیر ان سے مشکل سے خلاصی پا کر میں آگے پہنچی اور بیرونی کاونٹر سے نکل کرجب اندر گئی تو ابھی اور امتحان باقی تھے اب اندر ڈیوٹی پر موجود اہلکار جو کے قدرے نوجوان تھے اور اپنے موبائل کی محبت میں کافی مبتلا دکھائی نظر آتے تھے۔

انہوں نے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہونے چاہئے تو یہ تو پتہ تھا بڑے اچھے سے۔ میں نے انکی تسلی کرائی کہ پیسے بھی ہیں، کارڈز بھی ہیں اور گھر والے بھی ہیں وہاں۔ پھر جی انہوں نے بولا جائیں آپ جاسکتی ہیں اپنے سفر پر۔ وہاں سے خلاصی کے بعد بس پھر بورڈنگ کا مرحلہ تھا۔ سامان میں نے بیلٹ پر رکھا جو کے کافی سے بھی کم تھا۔۔ سمجھا کریں ناں! جاتے ہوئے کم ہی ہونا چاہیئے اور یوں میں مزے سے چلتی چلتی دروازے کو عبور کرکے ایک لمبی سی ہاتھی کی سونڈ جیسی سرنگ نما جگہ پر گئی اور وہاں تو مجھےسیدھا چلنے کی بجائے خوب جھول جھول کر چلنا پڑ رہا تھا۔ نہ جانے میں جانے کے نشے میں تھی یا نیند کے، بہرحال ہلتے جلتے بے وزنی کی حالت میں پہنچ ہی گیی جہاز کے اندر۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Saltanaton Ka Qabristan (3)

By Hamza Bhatti