Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Neelgon Panion Ka Safar (1)

Neelgon Panion Ka Safar (1)

نیلگوں پانیوں کا سفر(1)

یہ بات ہے دو سال پہلے فروری کے مہینے کی، کورونا کا ڈر تھوڑا تھوڑا کم ہوا تھا اگرچہ ختم نہیں ہوا تھا۔ ایسے ہی ایک کے بعد ایک دن بھاگا دوڑا گزر رہا تھا۔ کسی دن سردی زیادہ ہوتی تو کسی دن کم۔ ایسے ہی جاتی سردیوں کی ڈھلتی ہوئی، بهيد بھری اداسی میں گم، سرمئی شاموں میں سے ایک خاموش سی شام، جب میں کاموں کی انجام دہی سے فراغت پا کر اپنی شام کی چا ئے سے لطف اٹھا رہی تھی۔ باہر مکمل سکوت تھا۔ کبھی کبھی کسی گاڑی کا ہارن سنائی دے جاتا تھا۔ اتنے میں گیٹ کی گھنٹی ایک مخصوص انداز سے بجی۔ جس کو آج بھی میں سن کر پہچان جاتی ہوں کہ کون آیا ہے؟

"وہی جن کے دم سے ہوتی ہیں صبحیں اور شامیں پر سکوں"۔۔ خیر گھنٹی بجانے والے نے دھیمی سی آواز میں سلام کیا جسے نہ ہی کوئی سن سکے مگر سننے والے سن ہی لیتے ہیں کہ مُتکلم کون ہے؟

کچھ دیر گزری اور جب رات کا کھانا تناول کر لیا، قہوہ پی لیا۔ ابھی ہم ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے اور میں اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ آج جلدی کیسے آ گئے ہیں، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اسی سوچ بچار میں ہی کچھ وقت اور گزرا تو بولے تمہیں بتانا تھا کہ اور میں ہمہ تن گوش ہوگئی کہ لیں جناب! گویا بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ وه اپنے دفتری امور کی انجام دہی کے لیے کچھ دن کے لئے مالدیپ (Maldives) جا رہے ہیں تو آپ گھر اور بچوں کو دیکھ لیجیے گا۔ بظاہر میں نے اپنے آپ کو مصروف دکھایا مگر دل میں عجیب اتھل پتھل شروع ہوگئی تھی کہ کاش! وہ ایک بار بول دیں کہ تم بھی ساتھ چلو تو کتنا مزا آئےگا ناں! کیونکہ لوگوں کی انسٹا گرام کی سب تصاویر اسی جگہ کے بارے میں تھیں تو بھلا میں کیوں پیچھے رہ جاوں۔

مگر وہ اپنی ہی دھن میں بول رہے تھے تم جا کے کیا کرو گی؟ تمھیں تو پانی والی جگہوں سے وحشت ہوتی ہے اور میں اس وقت کو کوس رہی تھی جب میں نے یہ نامعقول بات منہ سے نکالی تھی اور انہوں نے اتنا دھیان دے کے سن بھی لی تھی ویسے تو ہر بات دوبار بولنا پڑتی ہے اور پھر بھی دفتر جا کے فون کرکے پوچھتے ہیں کہ پھر بتانا تم کیا بول رہی تھیں؟ گویا بات نہ ہوئی کوئی حساب کا سوال ہوگیا جسے دو تین بار حل کرنے سے ہی سمجھ آئے گی۔ خیر یہ بات بتا کے انکا تو ہوگیا فرض پورا اور وہ میچ دیکھنے لگے اور اب میں کیا کرتی جس کو ہاتھ پیر پڑ گئے تھے۔

اگلی صبح انہوں نے اپنا پاسپورٹ اور ضروری کاغذات نکالے تو میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ اکیلے جائیں گے جس پر انہوں نے بولا نہیں بھئی، اور میرے دل میں توجیسے مانو خوشی کے شادیانے ابھی بجنے ہی کو تھے کہ وہ مزید بولے کہ اور لوگ بھی ہوں گے ساتھ۔ لیں جی! کر لیں بات۔ یہ تو پوری پلٹون ساتھ جانے کو تھی۔ خیر میں نے بولا خیر سے جائیں۔ پھر پوچھا جانا کب ہے؟ بولے، اگلے ہفتے۔ ابھی سب بکنگ وغیرہ کرا نی ہے اور ٹکٹ لینی ہے۔

میں نے بات بڑھانےکو پوچھا کہ ٹکٹ ہوگئی کیا؟ تو بولے ہو جائے گی پھر خود ہی کہنے لگے تم تو بُور ہوجاو گی وہاں جا کے اس لئے تمہیں نہیں پوچھا نہ ہی لے جانے کا بولا۔ بہتر ہے گھر ہی رہو، کچھ ہی دن کی تو بات ہے۔ بس پھر مجھ سے رہا نہیں گیا، میں نے پکّا سا منہ بنا کے بولا بھلا میں آپ کے ساتھ جا کے تھوڑی ناں بُور ہوں گی۔ کچھ سوچنے کے بعد بولے، اچھا دیکھتے ہیں۔ مجھے پتا تھا اسکا مطلب ہے بس اس موضوع پر اب مزید بات نہیں ہو سکتی کیونکہ کام میں مزید مداخلت برداشت نہیں ہونی۔

اگلی صبح حسب معمول جب میں نماز، قرآن پڑھ کے صبح کے اذکار کرنے، چڑیوں کو باجرہ اور پانی ڈالنے باہر آئی تو دیکھا کہ موسم کچھ ابر آلود تھا، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر بادل برسنے کو تھے۔ ہر چیز گویا اپنے رب کی حمد و ثنا کر رہی تھی اور اسکا شکر بھی ادا کر رہی تھی بالکل میری طرح۔ خیر کچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ میں نے پتہ کیا ہے جدھر مجھے جانا ہے وہ واٹر ولاز سے دور ہے اور رہایشی جزیرہ ہے جدھرسیاح کم ہوتے ہیں تو وہاں کیا فائدہ تمھارے ساتھ جانے کا؟ پھر اپنی ہی بات کی تائید مجھ سے بھی کرانا چاہ رہے تھے، مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق میں نے بھی ہاں جی بول ہی دیا۔۔ کہ لا حاصل بحث کا کیا فائدہ۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry