Ik Baat Kahun Dildara
اک بات کہوں دلدارا
قصہ ہے بس 30 سال پہلے کا۔ اکتوبر کی آخری سانسوں کی لے پر ہولے ہولے آگے بڑھتی رات کی خاموشی میں جب ایک پرسکون اور بھید بھرے ساکن گھر، جس میں اداسی کی ہلکی سی آمیزش تھی اور لگتا کہ گویا گھر کے مکین کہیں اور کے باسی بن گئے ہیں۔ اس اسرار بھرے گھر کے در و دیوار بہت سی خوشگوار صبحوں اور قل قل کرتے قہقہوں والی شاموں کے چشم دید گواہ تھے جہاں چار سو خوشیاں ہی خوشیاں تھیں اور اس گھر کے دروازے اپنوں اور بیگانوں سب کے لئے وا رہتے تھے۔
اس با وقار اور ہر کسی کے رازوں کے امین گھر کے مکین پر سکون نیند سو رہے تھے۔ گھر کے لان میں موجود بڑے بڑے درخت بھی کسی سوگ کی سی کیفیت میں تھے اور گویا آپس میں سر جوڑے سرگوشیاں کر رہے تھے کہ اب کیا ہونے کو ہے؟ ایسے میں ٹیلی فون کی چنگھاڑتی گھنٹی کی آواز اس سناٹے میں گونجی۔ اس وقت موبائل فون کا استعمال اتنا عام نہیں تھا تو لوگ گھر میں لگے فون کو ہی استعمال کرتے تھے۔ اس گھنٹی کو سن کر اس گھر کے سربراہ کو اس اندیشے کے سچ ہونے کا خوف پہلے ہی لاحق ہوگیا تھا جس نے اس کو بہت دنوں سے ایک عجیب سے مخمصے میں گرفتار کیا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے 3 بج رہے تھے اور اس وقت کسی خیر کی خبر کی امید بالکل بیکار تھی۔ اس سربراہ کو ایک دم لگا گویا یہ بے رحم گھنٹی کسی بہت اپنے بہت پیارے کی بابت کچھ بتلانا چاہ رہی ہےجو سات سمندر پار تھا اور جس کو وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک قیمتی راز کی طرح چھپا کر رکھتا تھا۔
اس نے اپنی رازدار اور دکھ سکھ کی ساتھی کو دیکھا اور وہ ہمیشہ کی طرح بن کہے اس کی خاموش نگاہوں کی کہانی بھانپ کر فون سننے اٹھ گئی۔ جیسے ہی اس نے رسیور کان سے لگایا تو دوسری طرف کی بات سنتے ہی گویا اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کو لگا جیسے اس کی سماعت دھوکہ کھا گئی ہو۔ وہ وہاں رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کمرے میں موجود اس مرد اور عورت کے دل گویا بند ہو گئے تھے اور انکی سانسوں کے بس چلنے کی آواز آ رہی تھی مگر وہ چل نہیں رہی تھیں۔ ان کا دھیان ساتھ والے کمرے میں موجود اپنی بیٹیوں کی طرف بھی جا رہا تھا کہ ان کو نہ پتہ لگ جائے مگر پتہ تو سب کو لگنا تھا کہ اس گھر کا شیر بیٹا جس پر پورے گوجرانوالہ شہر کو فخر تھا اور جو کچھ ہی دن پہلے شوکت خانم ہسپتال کے لئے فنڈز اکھٹے کرنے امریکہ روانہ ہوا تھا۔ اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی تھی اور وہ کومے میں تھا۔
بات تھی اس دلدار کی جو سب کا دلدار تھا جو یاروں کا یار تھا۔ جس کو دنیا دلدار پرویز بھٹی کے نام سے جانتی تھی۔ جس کے شو دیکھنے کے لئے لوگ بیتاب ہوتے تھے۔ وہی دلدار جس نے ٹاکرا، یادش بخیر، میلہ اور پنجند جیسے لازوال پروگرام کئے اور جو بیک وقت اردو، انگریزی اور پنجابی تینوں زبانوں میں بولنے کی مہارت رکھتا تھا۔ وہ دلدار جو نہ صرف عوام میں اپنے بے ساختہ پن کی وجہ سے مشہور تھا وہیں وہ اپنے درس و تدریس کے شعبے کے ساتھ بڑا سنجیدہ تھا اور اس سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا۔
دلدار پرویز بھٹی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا ہوا تھا اور وہ مختلف گورنمنٹ کالجز میں اپنی تدریسی قابلیت کی وجہ سے مشہور تھے اور اپنے طالبعلموں میں ہر دلعزیز استاد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔ جو لوگ دلدار صاحب کو قریب سے جانتے تھے انہیں اس بات کا اچھے سے پتہ ہے کہ انہیں بچوں سے کتنا لگاؤ تھا اور اپنے بچے نہ ہونے کی محرومی کو وہ دنیا سے چھپائے پھرتے تھے اور بس ہنستے مسکراتے رہتے تھے مگر وہ ایک بہت حساس آدمی تھے۔ ان کا دل ہمیشہ بچوں اور بزرگوں میں اٹکا رہتا تھا۔
بات سے بات نکالنا، روتے ہوئے لوگوں کو ہنسا دینا، کسی کی مجبوری میں اس کے کام آجانا، کسی کے گھر کا چولھا جلنے میں مددگار بن جانا، کسی چھوٹے اور نئے فنکار کو اپنے کسی پروگرام میں موقع دے دینا، کسے کے بچے کا کالج میں داخلہ کروا دینا، کسی جگہ پروگرام کرکے پیسے نہ لینا، ایسے کئی کام وہ اکثر کر دیا کرتے تھے جن کا پتہ انکے اردگرد والوں سے چلتا تھا مگر وہ خود یہ سب خفیہ طور پر کرتے تھے کہ یہ انکا اور اللہ کا معاملہ تھا۔
اس دردمند اور درد دل رکھنے والے انسان کو ایسا کیا روگ تھا کہ اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی یعنی اس کے پاس جو اللہ کی دی ہوئی سب سے قیمتی نعمت تھی جس کے بل بوتے پر وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا اسی نے آج کام کرنے سے جواب دے دیا تھا۔ ابھی کل رات ہی تو اس نے اتنا کامیاب پروگرام کیا تھا اور جب چندہ کم ہوگیا تھا اور شوکت خانم بنانے والے عمران خان نے جب بولا بھٹی یار پیسے تو بہت کم اکھٹے ہوئے ہیں تو اس نے اپنی جھولی لوگوں کے آگے پھیلا دی تھی جس پر عارف لوہار رو پڑا تھا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو، مگر اس وقت دلدار بولا کہ میں یہ نہیں سن سکتا کہ پیسے کم اکھٹے ہوئے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مرد مجاہد کی پوری جھولی ڈالروں سے بھر گئی تھی اور نوٹوں سے اسٹیج بھرتا چلا جا رہا تھا۔
کہانی ہے ہی ان نوٹوں کی ازل سے ابد تک اور گود سے گور تک۔ یہ ہوس نہ کبھی ختم ہوئی ہے اور نہ کبھی ہوگی۔ اس دلدار کو لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، جس کو اس کے گھر والے پیار اور دلار سے دلدار بولتے تھے، جس کا بھائی اس کو دیکھ کر سانس لیتا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کی محبت بے حد عجیب تھی۔
بظاہر ایک دوسرے سے بے پرواہ نظر آنے والے دونوں بھائی ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے اس کا اندازہ کوئی شخص نہیں لگا سکتا تھا سوائے ان کے قریبی لوگوں کے جنہیں انکی ان محبتوں کا پتہ تھا اور وہ اکثر دیکھتے تھے کہ جب بڑا بھائی جو قدرے خاموش اور سخت مزاج دکھتا تھا مگر جب وہ آواری ہوٹل کے خنک ماحول میں گھونٹ گھونٹ اپنی گرم چائے کی چسکیاں لے رہا ہوتا تھا اور اس وقت آنکھوں میں ڈھیروں شرارت دبائے اور دل میں بڑے بھائی کی محبت لئے وہ دلدار جب آ کر پیسے مانگتا تھا تو سب کے علاوہ بھائی کو بھی پتہ ہوتا تھا کہ اس کو پیسوں کی ضرورت نہیں مگر بھائی کی توجہ درکار ہے۔
اس بات کو جانتے ہوئے بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے آگے بٹوہ کر دیتا تھا اور وہ اس میں سے سو روپیہ اپنا حق سمجھ کر وصول کر لیتا تھا۔ یہ سلسلہ دلدار کی ناگہانی وفات تک جاری رہا اور پھر اس کے دنیا سے جانے کے بعد اس کے بڑے بھائی کے دل میں اپنے راج دلارے بھائی کی بہت سی کھٹی میٹھی یادوں میں سےایک اور یاد بن کر رہ گیا۔
اس فون کے بعد اس کے گھر والوں کی زندگی ویسی نہ رہی اور نہ ہی وہ بڑا بھائی اس صدمے سے نکل پایا۔ اب وہ کس سے اپنے دل کی بات کرے گا، کس کو جھڑکے گا کہ تم گھر نہیں آئے۔
2 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد آخر 30 اکتوبر کو یہ ہنستا بولتا دلدار ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا اور اس نے دنیا میں اپنی آخری رات اپنے بھتیجے سے بولا تھا کہ اج دلدار دا شو مک گیا ہے۔ ان کا اپنے قدموں پر چل کر جانا اور پھر تابوت میں واپس آنا، انکے گھر والوں کا رونا بلکنا، جہاز کی آواز، ایمبولینس کا سائرن، پولیس موبائل کے ہوٹر آج بھی کانوں میں بجتے ہیں۔ اس دکھ کو ان کی لاڈلی بیوی نے کیسی سہا ہوگا، انکے بھائی بہن نے کیسے برداشت کیا ہوگا، اس بھابھی نے جسے وہ دوستوں اور بڑی بہنوں کی طرح سمجھتے تھے اس نے کیسے یہ جھیلا ہوگا اور اس کی بھتیجیوں جن میں ان کی جان بستی تھی نے اپنے چچا جان کا نہ ہونا کیسے محسوس کیا ہوگا اور وہ بھانجا بھانجی جو ماں باپ کے دنیا سے جانے کے بعد آج پھر سے یتیم ہو گئے تھے ان کی یتیمی شاید تا عمر اب ایسے ہی رہنے والی تھی۔
وہ بڑا بھائی جو خاموش طبعیت لئے گم صم رہتا تھا آج تو بھائی کی محبت دل میں لئے اور اس کے جانے کا دکھ دل میں لئے عجیب خالی خالی آنکھوں سے لوگوں کو تکتا تھا اور چپکے سے دل میں سوچتا تھا کدھر گیا میرا زندگی سے بھرپور آنکھوں والا میرا بھائی، شاید کہیں سے آ جائے اور مجھے پھر سے بھائی جان کہہ کر بلا لے تو شاید میں بھی پھر سے جی اٹھوں! مگر جانے والے بھلا کب واپس آتے ہیں اور اس دکھ نے اس کے بھائی کو فالج جیسا روگ لگا دیا جو مرتے دم تک اس کے ساتھ ہی رہا۔ وہ سب زبردستی کے رشتے کب الگ ہوئے اور کب ساتھ چھوڑ گئے کچھ پتہ نہیں لگا۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے بھلے اچھا ہو یا کہ برا ہو مگر اپنے پیچھے بہت سے ان دیکھے دکھ، لوگ، یادیں اور بہت سی ان کہی باتیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے جو تا عمر رلاتی ہیں۔
یوں تو ساری زندگی دلدار صاحب کے ساتھ بہت سے لوگ بھائی بہن اور بھتیجے بھانجے بنے رہے اور خوب اپنے مطلب نکالے مگر اس کے آنکھیں بند کرتے ہی انہوں نے بھی اپنی آنکھیں بدل لیں اور جلد ہی اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ دلدار صاحب کے بڑے بھائی نے اپنے خاندان کے ساتھ یہ سب صبر سے دیکھا اور برداشت کیا مگر یقینی طور پر اپنے رب کے آگے تو فریاد کی ہی ہوگی۔ جانے والے چلے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے یادوں کا ایک سلسلہ چھوڑ جاتے ہیں۔
افسوس بس اس بات کا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت وقت تا عمر اس کی بیوہ کو اس سرکاری کوارٹر میں رہنے دیتی تو سر چھپانے کو کوئی تو با عزت ٹھکانہ ہوتا، جب عمران خان صاحب حکومت میں آئے تھے تو کیا وہ ان کے گھر کو جانے والی سڑک ان کے نام سے منسوب نہیں کر سکتے تھے کہ کم از کم ان کا نام ان کو تو یاد رہتا جو یہاں سے گزرتے۔ ہر نو آموز فنکار کو پرائیڈ آف پرفارمنس مل جاتا ہے تو کیا اس فنکار کو نہیں مل سکتا تھا جس نے واقعی میں پی ٹی وی کے لئے ہی کام کیا تھا اور اپنے دور میں بہترین کام کیا تھا جو فی البدیہہ بولنے میں ماہر تھا اور جس کے فن خطابت کے آگے ٹھہرنا بڑے بڑوں کے لئے مشکل تھا۔
آج بھی پرانے لوگ دلدار کی دلداریوں اور اس کی بذلہ سنجی کو یاد کرتے ہیں۔ آج بھی کانوں میں اے نئیر کی آواز گونجتی ہے، اک بات کہوں دلدارا! مگر کیسے کہوں تم تو منوں مٹی تلے جا بسے، تم تو شہر خموشاں کے مکین بن گئے ہو اب تو ملاقات بس اوپر ہی ہوگی اور پھر سے ہم چچا جان کہ کر آپ کوپکار سکیں گے۔