Ghar Aaja Pardesi, Ab Aur Intezar Nahi Hota
گھر آ جا پردیسی، اب اور انتظار نہیں ہوتا
ہمارے ملک میں صحت سے متعلقہ سہولیات تب ہی آپ کو میسر ہیں اگر آپ کے پاس خوب مال ہے ورنہ ایک عام آدمی کے لئے صحت کی بنیادی سہولیات سے فائدہ اٹھانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بن گیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریض زیادہ اور سہولتیں کم ہیں۔ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے پر ایک بیڈ پر 2 مریض عام سی بات ہے اور پھر وینٹی لیٹر پر اگر جانے کی خدانخواستہ نوبت آ جائے تو وہ تو دستیاب ہی قسمت سے ہوتا ہے۔ ایسے میں کیا کیا جائے۔ بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنے پیاروں کو تڑپتا دیکھا جائے یا پھر اپنی حالت زار پر رویا جائے مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا، پرسان حال تو پھر بھی ہمارا کوئی نہ ہوگا اور ہم بس اللہ ہی کے آگے فریاد لے کر جائیں گے۔
پچھلے ہفتے مجھے کسی کو دیکھنے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا اور ہسپتال بھی سرکاری، سمجھ گئے ہوں گے آپ کہ وہاں کی حالت کیا ہوگی اور اگر کسی کو نہیں سمجھ آئی تو اب آ جائے گی۔ یہ ایک ایکسیڈنٹ کیس تھا اور مریض آئی سی یو میں تھا یعنی انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں۔ ہل گیا نہ آپ کا دل؟ مگر وہاں جو لوگ تھے ان کا نہیں ہلا، شاید کہ پتھر کا تھا۔ یہ لڑکا جس کو میں دیکھنے گئی تھی اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو اپنی رات کی ڈیوٹی کرکے گھر واپس جا رہا تھا اور اس نے اپنے والد کو بتایا بھی تھا کہ وہ گھر کے لئے نکل پڑا ہے اور جیسے کہ ماں باپ کی عادت ہوتی ہے کہ جب تک بچے گھر نہ آ جائیں وہ ان کے انتظار میں جاگتے رہتے ہیں۔
اس کے والد بھی اس کے انتظار میں جاگ ہی رہے تھے مگر انتظار تھوڑا طویل ہوگیا تھا۔ وہ کچھ بے قرار ہوئے کہ اب تک تو انکے جگر گوشے کو آ جانا چاہئیے تھا مگر وہ تو نہیں آیا ابھی تک۔ اس باپ نے اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ کسی دوست کے ساتھ باتوں میں لگ گیا ہوگا کیونکہ انکا بیٹا تھا تو یاروں کا یار مگر دل کو کسی پل قرار آ ہی نہیں رہا تھا۔ جب کافی وقت گزرا اور وہ واپس نہیں آیا تو وہ تھک کر بیٹھ گئے کہ آ جائے گا ابھی۔ اتنے میں ان کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی اور نمبر بھی کسی اپنے کا نہ تھا۔ انہوں نے جب فون کانوں سے لگایا تو دوسری جانب کوئی چلا رہا تھا کہ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور میں اسے فلاں ہسپتال میں لے آیا ہوں۔ اس کے فون سے آپ کا نمبر لیا ہے اور اب میں جا رہا ہوں مگر آپ پہنچ جائیں کیونکہ اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس باپ پر کیا گزری ہوگی جو اپنے بیٹے کے گھر آنے کا منتظر تھا اور اب وہ اس سے ملنے ہسپتال جا رہا ہے۔ بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچنے پر پہلے تو پتہ ہی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ہے کدھر اور جب پتہ لگا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ ان کا بیٹا آپریشن تھیٹر میں تھا کیونکہ اس کی حالت سیریس تھی۔ اس کے دماغ کے اندرونی حصے میں چوٹ لگی تھی اور اندر کی جانب خون رس رہا تھا اور وہ مستقل بے ہوش تھا۔ وہ تو جیسے ڈھے سے گئے ادھر بنچ ہی پر اور اللہ سے اپنے بیٹے کی زندگی کی دعا مانگنے لگے۔ کچھ دیر بعد انکو نرس نے بتایا کہ آپریشن ختم ہوگیا ہے مگر اس کو آئی سی یو میں لے گئے ہیں اور وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے۔
جب وہ اجازت لے کر اس کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے شیر جیسے جوان بیٹے کا پورا وجود مختلف نلکیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ سوہنی شکل جسے وہ چومتے تھے اس پر بھی پائپ لگے ہیں اور وہ ایک بے جان وجود لئے بغیر حرکت کے وہاں پڑا ہے۔ آئی سی یو کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک آ رہا ہے تو ایک جا رہا ہے گویا کسی کو ان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کی پرواہ ہی نہ ہو۔
اگلی صبح اور مشکل تھی کیونکہ اس باپ کے بیٹے کو سی ٹی اسکین کے لئے لے کر جانا تھا اور لفٹ اتنی بڑی نہ تھی کہ اس میں اسٹریچر جاتا اور نہ ہی اس کو ریمپ سے لے جا سکتے تھے کہ اس کے سر کو ہلانا خطرے سے خا لی نہ تھا۔ خیر کسی نہ کسی طرح ریمپ سے ہی لے گئے تو اسکین سے پتہ لگا کہ اندر خون مستقل رس رہا ہے اور اس کو روکنے کے لئے ایک اور سرجری ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور کچھ گھنٹوں بعد پتہ لگا کہ اب واپس اسے آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا ہے مگر حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس بات کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر اس کی حالت تشویشناک ہی ہے۔
ڈاکٹر کوئی امید دلانے سے قاصر ہیں اور اس کا باپ امید چھوڑنے سے۔ پورا دن اس کے دوست ہسپتال میں موجود رہتے ہیں اور اس کی زندگی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ کوئی معجزہ کر دے اور انکو انکا دوست واپس مل جائے۔ ان کے بلانے پر اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں تھوڑی سی حرکت ہوتی تو ہے مگر ڈاکٹرز کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی آنکھ کی پتلیاں ساکن ہیں۔ اگر ان میں حرکت ہوگی تو وہ مزید کچھ کر پائیں گے ورنہ نہیں۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی۔ معجزے اسی دنیا ہی میں ہوتے ہیں اور ہم بھی ایسے ہی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں جو اس باپ کو سکون دے دے اور اس کا لخت جگر اٹھ بیٹھے۔ آپ بھی اس کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
اٹھ جاؤ شہیر، اب بس کردو۔ ہم سے اور نہیں دیکھا جاتا تمہیں اس حال میں۔ گھر آ جا پردیسی، تیرے یار بلائیں تجھ کو۔ آؤ کہ تمہارے سے کچھ ادھوری باتیں کرنی ہیں۔ آؤ کہ تمہارے باپ کی بے چینی کو قرار ملے۔ اب اور انتظار مت کرانا!