Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ahsan Iqbal/
  4. Maulana Dr Abdul Razzaq Sikandar

Maulana Dr Abdul Razzaq Sikandar

مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ

یہ 30 جون2021 کا دن تھا، آج سورج آب و تاب سے طلوع ہوا، نہ معلوم کتنے لوگ اپنے اعزا و اقارب سے جدا ہوئے، نہ معلوم کتنی زندگیاں اختتام کو پہنچیں، بالکل اسی طرح معلوم نہ تھا کہ عالم اسلام کی ایک عظیم ہستی ابدی حقیقت کی طرف رخت سفر باندھے ہوئے ہے، آج ان کا اس دنیا فانی میں آخری دن تھا، خبر پہنچی تو عقیدت مند ہجوم در ہجوم کھینچے چلے آرہے تھے، آج ایک عہد تمام ہو ا، آج ایک باب انتہاء کو پہنچا، پھر ایسا ہوا کہ سورج ڈھلنے لگا، مگر شام ِغم ہے کہ ڈھلنے کو تیار نہیں دکھتی، دل ہے کہ یادوں کے بسیروں میں ڈوبا نہیں نکلتا، دماغ ہے کہ سوچوں میں سر گرداں نہیں تھکتا، جو بھولے سے بھلائے نہیں جاتے، جن کی زندگی علم و عمل کا گہوراہ تھی، یہ مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ صاحب تھے، ان کی جدائی بے شک عالم اسلام کے لیے صدمے اور دکھ کا باعث ہے، ہماری خاموش زبانیں، دھڑکتے دل اک لمحہ بھی ان کی جدائی محسوس کرنے سے قاصر نہیں رہ سکتے۔ بہت سے احباب نے بے شمار مجالس میں جب ان کی یادوں کے دیوں کو جلانا چاہا تو ہم بھی دل تھا مے ان میں آ بیٹھتے، اک دیا جلا بیٹھے۔

30 جون 2021 بروز بدھ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ ستاسی برس کی عمر میں انتقال فرما گئے، ان کی ستاسی سالہ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ محنت طلب امر ہے، البتہ ان کے سوانح عمری کی ہلکی سی جھلک پیش خدمت ہے۔

سنہ 1935 میں ضلع ایبٹ آباد کے نواحی علاق" کوکل" میں آپ کی پیدائش دین دار گھرانے میں ہوئی، آپ کے والد گرامی کا نام سکندر خان بن زمان خان تھا، آپ کے والد گرامی بھی سماجی خدمات میں اپنے علاقہ میں مشہور و معروف تھے، آپ کا بچپن، لڑکپن اور زمانہ جوانی آپ کے ہم نوا، ہم عصروں کی زبانی نہایت ہی اعلی سیرت کا حامل رہا۔ بچپن ہی سے علم اور علماء سے محبت اور گہری وابستگی رکھتے تھے، جس کا اثر ان کی شخصیت پر کچھ یوں نمایا ہوا کہ چھوٹی عمر میں ہی دینی معلومات پر کافی گرفت حاصل ہو گئی، اہل علم بھی آپ کے سامنےگفتگو میں احتیاط برتتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ غلط بات پر ٹوک دیا کرتے تھے۔

قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم اور میٹرک تک کی عصری تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کی، اس کے بعد دینی علوم کی خاظر ہری پور کے ایک مدرسہ دارالعلوم جوہڑ شریف کی طرف رخت سفر باندھا، وہاں دو سال پڑھنے کے بعد احمد المدارس سکندر پور کی طرف کوچ کر گئے، وہاں پر بھی دو سال تعلیم کے حصول میں مگن رہے۔ اس کے بعد سنہ 1952 میں درجہ رابعہ سے سادسہ تک کی تعلیم مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں حاصل کی۔ بعد ازاں درجہ سابعہ سے دروہ حدیث تک علامہ یوسف بنوریؒ کے مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں پڑھا، اور سنہ 1956 میں سند فراغت حاصل کی۔

اس کے علاوہ سنہ 1962 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے علوم نبویہ کا حصول کیا، اور پھر 1972 میں جامعہ الازہر میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا اور چار سال میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، جس میں ایک مقالہ بعنوان" عبد اللہ بن مسعود ؓ امام الفقہ العراقی" لکھا۔ ڈاکٹر صاحب کا جامعہ ازہر جانا بھی ان کی قابلیت کی عکاسی کرتا ہے، کہ ایک دفعہ مصر کی المجلس الاعلی بشؤن الاسلامیہ کے رئیس پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے تھے، تو بنوری ٹاؤن مدرسہ کے معائنہ کے لیے بھی تشریف آوری ہوئی، اس دوران ڈاکٹر صاحب بطور متکلم فرائض انجام دے رہے تھے، آپ نےایک خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جس سے رئیس موصوف، ڈاکٹر صاحب اور مدرسہ کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے، پھر اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ" میں اپنے ادارہ کی طرف سے اس جامعہ کے چار طلبہ کو جامعہ ازہر میں پی ایچ ڈی میں داخلہ کی منظوری دیتا ہوں، جن میں پہلا نام ڈاکٹر صاحب کا ہوگا"۔

ڈاکٹر صاحب کے ایک ایک شاگرد لکھتے ہیں کہ" ایک دن ہمیں نصیحت کرتے ہوئے اپنا ایک واقعہ سنایا، فرمانے لگے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جامعہ ازہر مصر میں زیر تعلیم تھا، میں روزانہ جامعہ ازہرپڑھنے کے لئے بس کے ذریعےجا تا تھا، ایک دن ایسا ہوا کہ بس، اسٹاپ پررکی، بس میں سارے عیسائی طالب علم سوار تھے، ان میں صرف ایک میں ہی مسلمان تھا، ایک عیسائی پادری بس میں سوار ہوا، چونکہ ساری بس بھری ہوئی تھی، کوئی سیٹ خالی نہ تھی، میں نے فورا اپنی سیٹ چھوڑی اور اس بوڑھے پادری کو اپنی جگہ عزت سے بٹھا دیا، تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ عیسائی پادری سر جھکا کر رو رہا ہے، میں نے اس سے رونے کی وجہ دریافت کی، تو وہ کہنے لگا کہ میں سوار ہوا، ساری بس میں نوجوان عیسائی تھے، کسی نے مجھے جگہ نہیں دی، ایک مسلمان نے مجھے عزت دی، اور جگہ د ی، یہ کام اگر ان میں سے کوئی عیسائی طالب علم کرتا تو میں بڑے فخر کے ساتھ کہتاکہ ہمارے مذہب میں ادب و احترام ہے"۔

آپ کےچند مشہور اساتذہ و مشائخ میں، علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ، مولانا عبدالحق نافع کاکاخیلؒ، مولانا عبدالرّشید نعمانیؒ، مولانا لطفُ اللہ پشاوریؒ، مولانا سَحبان محمودؒ، مفتی ولی حَسن ٹونکیؒ اور مولانا بدیع الزّماں ؒ شامل ہیں۔

ظاہری علوم میں غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ باطنی علوم میں بھی آپ نے خود کو روحانی طور پر مزین کرنے کی جدو جہد جاری رکھی، اور اس مقصد کے واسطے علامہ یوسف بنوریؒ، مولانا زکریا کاندہلوی، ڈاکٹر عبد الحئی عارفی، علامہ محمد یوسف لدھیانوی اور سرفراز خان صفدر ؒ جیسی مایہ ناز شخصیات سے اجازت بیعت و خلافت حاصل کر رکھی تھی۔

عقیدۂِ ختمِ نُبوّت کے تحفظ اور فتنۂِ قادیانیت کے روک تھام کے لیے عالمی مجلس ختم نبوت کا قیام، قیامِ پاکستان کے بعد امیرِ شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری ؒکی زیرِ امارت ہوا۔ سنہ 1981 میں ڈاکٹر صاحب کو عالمی مجلس تحفط ختم نبوت کی مجلس شوری کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا، بعد ازاں 2008 میں مولا نا سید نفیس شاہ الحسینی ؒکی وفات کے بعد آپ کو نائب امیرمرکزیہ بنایا گیا، پھر 2015 میں امیر مولانا عبد المجید لدھیانویؒ جو کہ مرکزیہ کے امیر تھے، ان کے انتقال کے بعد آپ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت سونپی گئی۔

1977 میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے ناظم تعلیمات کے عہدے پر فائز ہوئے، 1997 میں مولانا حبیب اللہ مختار ؒ کی شہادت کے بعد آپ کو رئیس الجامعہ کے لیے منتخب کیا گیا، 2004 میں مفتی نظام الدین شامزئی ؒ کی شہادت کے بعد جامعہ کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔

اقراء روضۃ الاطفال پاکستان کا وہ پہلاادارہ ہے جس میں دینی و دنیاوی علوم و فنون کے امتزاج کا باقاعدہ انتظام کیا گیا ہے، اس ادارے کی سر پرستی جن اکابر کو حاصل رہی ان میں مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانا محمّد یوسف لدھیانویؒ، حضرت سیّد نفیس الحسینیؒ، مولانا خواجہ خان محمّدؒ، مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ جیسی عظیم شخصیات شامل رہی، مذکورہ اسلاف کے بعد اس ادارے کی صدارت ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر صاحبؒ کو حاصل رہی۔

میڈیا سنٹر وفاق المدارس العربیہ کے مطابق پاکستان میں مدارس دینیہ کے سب سے بڑے نیٹ ورک وفاق المدارس العربیہ ہے، جس کے تحت اس وقت تئیس ہزار سے زائد مدارس و جامعات ملحق ہیں، جس میں پچیس لاکھ سے زائد طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زائد علماء وعملہ اس سے منسلک ہے، 1997ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی شہادت کے بعد ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرصاحب کو وفاق المدارس کی مجلسِ عاملہ کے رُکن بنایا گیا، 2001ء میں آپ نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار اُن کی نیابت بھی کرتے رہے، اور اُن کی وفات کے نو ماہ بعد 14 محرّم الحرام 1439ھ موافق 05 اکتوبر 2017ء کو وفاق المدارس کی مرکزی مجلس عمومی کی جانب سے آپ کو صدروفاق منتخب کیا گیا، اور دوسری دفعہ 3 جون 2021 کا آئندہ 5 برس کے لیے دوبارہ آپ صدر منتخب ہوئے، اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحای کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔

ڈاکٹر صاحب تعلیم و تعلم کے علاوہ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی چند تالیفات و تصنیفات میں میں شامل چند کتب کے نام یہ ہیں۔

1: الطریقۃ العصریۃ۔

2: کیف تعلم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا۔

3: القاموس الصغیر۔

4: مؤقف الامۃ الاسلامیۃ من القادیانیۃ۔

5: تدوین الحدیث۔

6: اختلاف الامۃ والصراط المستقیم۔

7: جماعۃ التبلیغ و منھجہا فی الدعوۃ۔

8: ھل الذکریۃ مسلمون؟

9: الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔

10: الاسلام و اعداد الشباب۔

11: تبلیغی جماعت اور اس کا طریقۂِ کار۔

12: چند اہم اسلامی آداب۔

13: محبّتِ رسول ﷺ۔

14: حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اس کے علاوہ آپ نے بے شمار عربی اور اردو مضامین بھی لکھے، جو مختلف جرائد و اخبارات کی زینت بنے، آپ کے اردو مضامین کے تین مجموعے بھی شائع ہوئے، جو، " مشاہدات و تاثرات"، "اصلاحی گزارشات"، " تحفظ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں " کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ روز نامہ جنگ کے سلسلہ"آپ کے مسائل اور ان کا حل" کے مستقل لکھاری بھی رہے، اور دیگر چند ماہنامہ جات کے مدیر و مسئول کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔

ڈاکٹر صاحب نے علالت کا طویل عرصہ گزارا، آخری ڈیڑھ ہفتہ وینٹی لیٹر پر رہے اور بالآخر کراچی میں 30 جون 2021 بروز بدھ استاذ العلماء والمشائخ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ ستاسی برس کی عمر میں اپنے بے شمار عقید ت مندوں کوداغ مفارقت دے گئے۔ ان کی ستاسی سالہ زندگی کا ہر پہلو قابل تقلید ہے، ایک معتدل، نرم گوشہ شخصیت تھے، انتہائی اہم اور اعلی مناصب پر فائز رہنے کے باوجود وہ مذہبی و سیاسی تنازعات سے تہی دامن رہے۔ ان جیسی شخصیات کی پیدائش نوادرات میں سے ہے۔ ایسی عظیم ہستیوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا یہ وہ صدمے ہیں جن کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس عالم کون فساد میں موت ہر نفس کے لئے ہے اور ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے نہ تو انکار ہے اور نہ ہی راہ فرار ہے۔ اس دنیا میں آنا جانا ابتداء آفرینش ہی سے چلا آرہا ہے۔

کاتب تقدیر نے جس نفس کے لئے جو لمحہ مقرر کیا ہے اس کے آتے ہی نہ کوئی بادشاہ ٹک سکا نہ کوئی فقیر۔ نہ کوئی حقیر ٹھہر سکا نہ کوئی جلیل۔ لیکن ایک عام آدمی کی موت میں اور ایک مبلغ اسلام کی موت میں بڑا فرق ہوتا ہے، عام آدمی کی موت سے اس کا گھرانا، اس کے عزیز و اقارب غمزدہ ہوتے ہیں۔ لیکن ایک مبلغ کی موت کا جھونکا غموں کے بادلوں کو عالم اسلام کے کونے کونے تک لے جاتا ہے۔

موت پر غم ایک فطری چیز ہے، لیکن اہل اسلام کے غم میں اور باقی اقوام کے غم میں بھی فرق ہے، دوسری اقوام اپنے عزیز کی موت پر غمگین ہوتی ہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک ان کے عزیز کی ذات بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ موت سے انسان ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کی ایک نئی اور حقیقی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے، البتہ دنیا کا یہ فراق عارضی ہوتا ہے، اس وجہ سے بچھڑ جانے کا غم ہوتا ہے، لیکن عارضی فراق کےدکھ کو بھی عارضی سمجھنا ہی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

اسلام کی تعلیمات کے مطابق جسے لوگ انتہا سمجھتے ہیں در اصل وہیں سے ابتداء ہوتی ہے۔ جسے لوگ موت سمجھتے ہیں حقیقت میں وہی تو اصل حیات ہوتی ہے۔ جسے لوگ جدائی سمجھتے ہیں وہی تو اصلِ وصال ہے۔

راقم السطور کی دعا ہیکہ اللہ تعالی، ڈاکٹر صاحبؒ کی بال بال مغفرت فرمائیں۔ ان کو بشری خطاؤں سے درگذر فرما کر اعلیٰ علییں، جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائیں۔ ان کے تمام پس ماندگان کو صبر جمیل اور صبر جمیل پر اجر عظیم عطاء فرمائیں، اور ان کے اوصاف و کمالات کا حامل بنائے۔ آمین....!

Check Also

Bhook, Khauf Aur Sabr

By Javed Ayaz Khan