Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Advocate Yasir Ali
  4. Pakistan Mein Income Tax Qanoon, Aik Nazar Haqiqat Par

Pakistan Mein Income Tax Qanoon, Aik Nazar Haqiqat Par

پاکستان میں انکم ٹیکس قانون، ایک نظر حقیقت پر

پاکستان کی معیشت طویل عرصے سے بحرانوں کا شکار ہے۔ کبھی مالی خسارہ، کبھی آئی ایم ایف کی شرائط، تو کبھی اندرونی معاشی بدانتظامی، ان سب کی جڑیں اگر تلاش کی جائیں تو ایک اہم سبب ہمارے ملک کا غیر مؤثر ٹیکس نظام ہے، جس میں سب سے بنیادی اور مرکزی قانون "انکم ٹیکس قانون" ہے۔

پاکستان میں انکم ٹیکس کی بنیاد "انکم ٹیکس آرڈیننس 2001" ہے، جس نے 1979 کے قانون کی جگہ لی۔ یہ قانون تمام ان افراد، کمپنیوں اور تنظیموں پر لاگو ہوتا ہے جو پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی ذریعے سے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ اس میں قابلِ ٹیکس آمدنی، اخراجات کی کٹوتی، ٹیکس ریٹرن فائلنگ، آڈٹ، پنالٹی اور اپیل جیسے امور کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔

قانون اپنی جگہ موجود ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون صرف کاغذوں تک محدود ہے یا اس پر حقیقی معنوں میں عمل بھی ہوتا ہے؟ جواب تلخ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام طبقاتی تفریق، سیاسی مداخلت اور بدعنوانی سے لبریز ہو چکا ہے۔

ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کے مطابق پاکستان میں صرف 30 لاکھ افراد ٹیکس فائلر ہیں، جن میں سے بھی بڑی تعداد صرف اس لیے ریٹرن فائل کرتی ہے تاکہ وہ "نان فائلر" کی فہرست سے بچ سکے، حقیقی ٹیکس دہندگان کی تعداد اس سے کہیں کم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف چند لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں!

مسائل اور وجوہات

1۔ ٹیکس نیٹ کا محدود دائرہ: زراعت، ریئل اسٹیٹ، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر اربوں روپے کماتے ہیں مگر زیادہ تر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔

2۔ عدم اعتماد اور خوف: عوام کا ایف بی آر پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹیکس فائلر بننے کے بعد انہیں ہراساں کیے جانے کا خدشہ رہتا ہے۔

3۔ سیاسی مداخلت: ہر حکومت اپنے من پسند افراد کو ریلیف دیتی ہے، کبھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے، تو کبھی فائلرز کے خلاف غیر ضروری کارروائی روک کر۔

4۔ ٹیکنالوجی کا ناقص استعمال: دنیا ڈیجیٹل ٹیکس نظام کی طرف بڑھ چکی ہے، مگر ہمارے ہاں ابھی بھی بیشتر کام کاغذی دستاویزات پر ہوتا ہے۔

اصلاحات: وقت کی اہم ضرورت

پاکستان کے موجودہ مالی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ٹیکس نظام میں فوری اور مؤثر اصلاحات کی جائیں:

ڈیجیٹل فائلنگ سسٹم کو فروغ دیا جائے تاکہ ہر شہری گھر بیٹھے اپنی آمدنی کا گوشوارہ فائل کر سکے۔

ٹیکس تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل ٹیکس کو ایک ذمہ داری سمجھے، نہ کہ سزا۔

سیاسی اثر و رسوخ سے ٹیکس اداروں کو آزاد کیا جائے اور غیر جانبدارانہ آڈٹ کا نظام قائم کیا جائے۔

انعامی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں جو باقاعدہ ٹیکس فائلرز کو مراعات فراہم کریں۔

ٹیکس کی رقم کا شفاف استعمال یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کو نظر آئے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔

جب تک عوام خود کو اس نظام کا حصہ نہیں سمجھیں گے، بہتری ممکن نہیں۔ ہر فرد، چاہے وہ چھوٹا تاجر ہو یا بڑا صنعت کار، اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا درست حساب دے اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کرے۔

انکم ٹیکس قانون کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ قانون اکثر کمزور اعصاب اور بدنظمی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس قانون کو اگر درست طریقے سے نافذ کیا جائے، اداروں میں اصلاحات لائی جائیں اور عوام کا اعتماد بحال کیا جائے، تو نہ صرف ملکی معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ پاکستان اپنی مالی خودمختاری کی جانب بھی پیش قدمی کرے گا۔

یہ کالم عوامی آگاہی اور اصلاح کے جذبے کے تحت تحریر کیا گیا ہے۔ حکومت، ادارے اور عوام سب کو مل کر اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam