Halat e Hal
حَالتِ حَال
خُلق کی جمع اَخلاق اور جمع الجمع ہے اَخلاقیات یعنی عادات و حرکات، یہ اَخلاقیات بَد بھی ہو سکتی ہیں اور اچھی بھی۔ انسان اپنی عادات و حرکات سے اپنی سوچ کی پختگی اور فکر کی سمت کا اظہار کرتا ہے۔ کسی شخص کی بِیسیوں اچھائیوں کے باوجود اس کی اک برائی یا مسلسل لغزش اُس کی تمام تر اچھائیوں پر غالب آ جاتی ہے اِس کے بعد اُس فردِ واحد کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ سیاسیات کے مطابق ہر خاندان ریاست یا معاشرے کی اکائی شمار ہوتا ہے۔
تو اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد خاندان کی اکائی شمار ہوگا یعنی فرد کا زوال ایک خاندان کو پست کرنے کا سبب بنتا ہے اور خاندان کی پستی معاشرے کو لے ڈوبتی ہے۔ اس تمہید کا مقصد صرف آپ قارئین کو اس جملے کی گہرائی باور کروانا ہے جس کی گردان جناب حسن نثار صاحب حیاتِ پاکستان کے قرونِ اولی سے کر رہے ہیں کہ "پاکستان کا مسئلہ معاشیات نہیں بلکہ اَخلاقیات ہے"۔ لفظ "مسئلہ" بہت کم مثبت اظہارِ رائے کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اچھی نہیں بلکہ بُری اَخلاقیات یعنی عادات کی مالک قوم ہیں۔
ایک ایسی ہی عادت جھوٹ بھی ہے جس کا پرچار خود بھی کرتے ہیں اور اس کی گاہے گاہے ترغیب بھی کرتے ہیں چاہے وہ عام آدمی ہو یا ملکی حکام۔ باوجود اس کے کہ صفائی ہمارے ایمان کا حصہ ہے ہم لوگ جہاں خالی جگہ دیکھیں اس کو غلاظت سے پُر کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ حدیث کہ صفائی نصف ایمان ہے دیوار تک محدود کر دی گئی ہے۔ اسی حدیث کے جملے تلے کوڑے کا ڈھیر ہماری فکری بنیاد پر مستقبل کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔
ناپ تول تو ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا اور رشوت ویسے ہی اس ملک کا کلیشے بن چکا ہے جس سے ہر خاص و عام کا کام چل رہا ہے۔ کام چوری، سستی، کاہلی اور بے فکری جیسی روحانی بیماریاں تو ہم کو ایسا لگتا ہے جیسے اجداد سے ورثے میں ملی ہوں۔ نوکری پر صبح دیر سے جانا اور چھٹی کے مقررہ وقت سے پہلے گھر آنے کو ہم شہنشاہی سمجھتے ہیں اور اک عادت جو کہ جرم سے زیادہ سنگین ہے وہ ہے خاموشی، جو ہم ہر ظلم و زیادتی، جبر اور استحصال پہ پچھلے 75 سالوں سے سادھے ہوئے ہے۔
بہت سی عادات جو ہم کو گورے سونپ گئے اُن میں سے اک سرکاری نوکری بھی ہے۔ اس سرکاری نوکری نے ہماری بے صبری اور بے توکلی اس قدر بڑھا دی ہےکہ ہم اس کے کسی بھی عہدے کے لئے رشوت اور حصول کے بعد نجی اشخاص کو دبانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گورے تو ہندوستانیوں پر اپنا رعب بٹھانے کے لئے خود پہ اکڑ تاری رکھتے تھے مگر یہاں کے لوگ بچارے دکھاوے کی اکڑ سے اپنے جسمانی خدوخال اور چال چلن میں عاجزی ہی تباہ کر بیٹھے ہیں۔
گاڑیوں کے پرٹوکول سسٹم نے ہمیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ہم راہگیروں کو جانوروں سے کم تر سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ عادات ہم نے گوروں سے دیکھی اور خود پر سہہ رکھی ہیں تو اس کو ہم نے بھی اپنی زندگیوں پر لاگو کر لیا۔ عہدے کا سریا ہماری گردن پہ ایسا بار ہے جس سے یہ قوم 75 سالوں سے نابلد ہیں۔ شاہراہوں کا حال دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی چراگاہ کا منظر دیکھایا جا رہا ہے جہاں مادر، پدر آزارد جانور کئی اطراف منہ کیے لپکے جا رہے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ لوگ سگنل پر رکنا بے وقوفی اور کمتری کی علامت سمجھتے ہیں۔
کچھ روز قبل لاہور میں کنیڈین برینڈ (ٹِم ہارٹن) کی فرنچائز کا افتتاح ہوا۔ مایوس کن مناظر دیکھ کر اس قوم کی ترجیحات کا اندازہ ہوا کہ وہ قوم جو بل کی ادائیگی اور اے ٹی ایم مشین کے باہر کھڑے اندر والوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے وہ اس معاشی کسمپرسی میں جب غریب دو وقت کے کھانے کو ترس رہا ہے، ایک کپ چائے کے لئے لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔ یہ برٹش کولونیل اس قدر بدنصیب ہیں کہ کھانے کو کچھ نہیں مگر سفر انفرادی سواری پر ہی کرنا پسند کرتے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر یہاں کا عام آدمی بھی توہین سمجھتا ہے۔
ملکی، معاشی اور سیاسی ہنگامہ خیزی دیکھنے کے بعد جب حکامِ بالا پر لعن تعن کرتے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو سر دھنتا ہوں اس قوم کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ یہ کچھ دیر رُک کر حالتِ حال پر غور کریں کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں قرآن بھی تو ہمیں یہی کہتا ہے "کہاں جا رہے ہو" مگر بے فکری ہمارے رگ و پے میں رچ بس گئی ہے۔ ہمیں تو شروع سے عادت ہے ٹھاٹھ سے دوسری قوموں کی تعریف کرنا اور اپنی حالت پہ کفِ افسوس مل کر گُفتگو کو تمام کر دینا۔ یقین جانیے مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ قوم کبھی انسانی آبادیوں میں رہنے کے لئے سدھائی ہی نہیں گئی۔
خیر اک لمبی فہرست ہے اس قوم کے اوصافِ حمیدہ کی جو ہم لوگ بہتر جانتے ہیں اور اس بحث پر صفحے کالے کرنے کا فائدہ نہیں۔ ابھی وقت ہے بجائے اس کے کہ ہم حکمرانوں کو گالیاں دیں ہم کو اپنی عادات کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں راہِ راست پر خود آنا ہوگا جیسے ارسطو نے کہا تھا کہ انسان معاشرتی حیوان ہے اس حیوان کو اُصولوں کا پابند نہ بنایا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ ہم اگلے سو سال بھی اسی افراتفری میں ہوں گے۔
خدا سے دعا ہے کہ ہمیں راہِ ہدایت دے وگرنہ ہم پر علاؤدین خلجی یا سٹالن جیسے حکمران مسلط کر دے تاکہ ہر کیے کا مزہ ہم فوراََ چکھ لیں اور باقیوں کے لیے عبرت کا نشان چھوڑ جائیں۔