Aurton Ka Din
عورتوں کا دن
یوں تو عورت کے بغیر کوئی دن نہی ہوتا ہے مگر ہر سال خواتین کی گھر سے لے کرمعاشرے تک کی تزئین و آرائش کے سفر کو اُجاگر کرنے کے لئے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں علاقائی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک خواتین کی خدمات کا اعتراف اور ان کے کارہائے نمایاں کو اَحسن انداز میں سراہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عورت صنفِ نازک ہے مگر حقیقت میں جنس کی یہ صنف ایام کی آہنی چوٹوں کے سامنے اُن سنگلاخ پہاڑوں کی مانند ہوتی ہے جسے پانیوں کے بپھرے تھپیڑے بھی نہیں ہلا سکتے۔ عمر بھر حالات کی تلخی سے کُھلنے والے چھید کو صبر کے دھاگے سے سیتے سیتے گزارتی ہے اور یہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسےخدا نے مرد کو جسمانی قوت سےنوازا ہے اسی طرح عورت کوخدا نے نفسِ مطمعنہ کی نعمت عطا کی ہے۔
میرے معاشرے کی عورت چاہے اپنے حقوق سے لاعلم ہو لیکن یہ اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہے اور اگر کوئی عورت فرائض کی روش کو اختیار نہیں کرتی تو فطرت کے قانون سے روگردانی تو ازل سےہر مردو زن کی سرشت میں ہے اس پہ کسی مرد کو عورت پہ اور کسی عورت کو مرد پہ اعتراز کا حق نہیں۔ مگر معاشرے کا رکن ہونے کی حیثیت سےہراک کو چاہے وہ مرد ہے یا عورت اسے اخلاقی، معاشرتی اورسماجی رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ معاشرے کے مہذب رکن بنیں اور معاشرہ بہترین تہذیب کی پہچان ہو۔
پہلے پہل ٹی وی پر مختلف نشریات یا اخبارات میں کالم، اداریے، خصوصی صفحات اور میگزین کے خصوصی اڈیڈیشن کے ذریعے خواتین کے کارہائے نمایاں، اِن کی خدمات سے عوام کا تعارف اور عوام کی رہنمائی کا سامان کیا جاتا تھا جس میں قوم و ملت کی ذہین لڑکیوں اور عورتوں کو بلا کر اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی، خاص کر طالبات کو ان تقریبات کا حصہ بنایا جاتا تھا تا کہ ان معمارِ وطن کو اپنےرستوں کا تعین کرنے میں آسانی ہو اورقدامت پسندی سے چھٹکارا ملے۔
پچھلے چند برسوں سے پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں عورتوں کو حقوق سے آشنائی کےلئے عصری تعلیمی جامعات کی نو عمر طالبات میں اک غیر فطری تحریک دیکھنے میں آئی جس نے مہذب اور صاحبِ عقل و خرد پہ سکتا طاری کر دیا۔
آخر یہ تحریک، تحریکِ حقوقِ نسواں کی ترغیب دے رہی ہے تحریکِ آزادیِ نسواں کی ترجمانی کر رہی ہے یا پھرتحریکِ بے حیائی کی علمبردارہے میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر عورتوں کے عالمی دن پہ بجائے اس کے کہ ملت کی ذہانت اور قابلیت کو نمونہء عمل بنایا جائے لوگ غیر اخلاقی پوسٹر، غیراخلاقی لباس اور حرکات سمیت اک سیلِ بے ہنگم لئے جلوس کی صورت سڑکوں پہ آجاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد طالبات کی ہوتی ہے اور دیگر اُن فحش نعروں کی تکرار سننے والی عوام ہوتی ہے جو کہ بظاہر اُسی جلوس کا حصہ نظر آتی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا، ان کی تقسیم اُن کے لباس سے با آسانی کی جاسکتی ہےجبکہ اصل جلوس کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ملک کا متوسط اور زیریں متوسط طبقہ قدامت پسندی سے توباہر آیا ہے مگر کچھ لوگ اپنی معاشرتی اقدار کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔
اگر یہ تحریک حقوقِ نسواں سے تعلق رکھتی ہے تو وہ کون سے حقوق ہیں جن کا تقاضہ سرِ عام ہو رہا ہے؟ یقینا! اگر ایسے سرِ بازار ببانگِ دُہل گونج کر حقوق کا تقاضہ کیا جا رہاہے تو لازمی ریاستی کوتاہی اس میں شامل ہےمگر سر دھننے کی بات یہ ہے کہ ان پوسٹرزپہ کوئی تقاضہ بھی نہیں لکھا گیا جس سے ریاست کے متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں اور اِن کےمسائل حل کریں۔
اب تقاضہ کیا ہے؟ وہ دیکھیں تو ایک نامعلوم افراد کے لئے لکھاہے کہ "اگر دُوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو"
مجھے نہیں لگتا کہ اِن کو کسی مرد نے سرِ راہ پکڑ کر دُوپٹے کی تلقین کی ہوبجز والدین اور قرآنِ مجید۔ اگر والدین کی اس بات سے آپ نالاں ہیں تو گھر کی بات ہے گھر میں رہنے دیں اور اگر آپ کو حکمِ خدا سے روگردانی کرنا ہے تو آپ کا ذاتی فیصلہ ہے مگر اس کو اپنے تئیں رکھیں اس کی ترغیب کی گنجائش اس ریاست میں نہیں ہے۔
اک اور پوسڑ پہ لکھا تھا کہ "عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے" صد شکر کہ آپ پیدا ہوئیں! اولادنعمتِ خدا ہے یہ بات اُن سے پوچھیں جو برسوں سے بے اولاد ہیں اور یہ بھی آپ کے گھر کی بات ہے کیا آپ کو راہ گیروں نے بچہ پیدا کرنےیا نا کرنے پہ تنقید کی ہے جو آپ سڑکوں پہ آ کر للکار رہی ہیں۔
"اپنا ٹائم آئے گا" یہ جملہ پڑھتے ہی اک حدیث یاد آئی کہ "جب دنیا میں دجال وارد ہوگا تو عورتیں اُس کا ہراول دستہ ہونگیں اور لوگ اپنی بڑی عمر کی عورتوں کو گھروں میں باندھ دیں گے کہ کہیں یہ دجال کے نرغے میں نا آ جائیں"دعا گو رہیں کہ اپنی کسی بھی سر زنش پہ ایسی اخیر سے بچیں۔
اور بھی بے شمار بیہودہ اور اخلاق سے گرے جملے جن کو وہ حوا کی بیٹیاں ہاتھوں میں لیے کھڑی تھیں جوکسی صورت بھی حقوق کی ترجمان تحریک کا ثبوت پیش نہیں کرتے تھےمگر ہاں بعدازاں جلوسوں میں چند ایسے جملے بھی تھے جو کہ خیانت سے اجتناب کرتے ہوئے بتاتا چلوں جو معاشرے کےلئے بگاڑ کا باعث نہیں تھے جیسے "جہیز کی مانگ بے غیرتی کا کام"، "مرد بنو خدا نہیں"، اسکول بھیجو سسرال نہیں"، اور "نام بیٹا نہیں بیٹی بھی روشن کر سکتی ہے" وغیرہ۔ یہاں وراثتی جائیداد، نکاح اور طلاق کے علم میں بے ضابطگی، تعلیمی مسائل اور خاص کر صحت کا تقاضہ نظر نہیں آیا جو کہ پاکستان کے مسائل کا خاصا ہےتواب یہ تحریک حقوقِ نسواں کی فہرست سے تو خارج ہوئی!
تو کیا یہ تحریک آزادیِ نسواں کی علمبردار ہے؟ اگر ہے تو وہ کون سی آزادی ہےجس کی طرف اشارہ ہے؟ پاکستان میں ہر جائز آزادی ہر عورت کو حاصل ہے اور ناجائز آزادی ہر مرد اور عورت کے اختیار میں ہے ریاست اسلامی قوانین پہ قائم ہونے کے باوجود ابھی ریاست میں اُصولِ اسلامی کا نفاذ تو نہیں ہے مگر جہاں تک ممکن ہے ہمارا معاشرا مضبوط خاندانی ڈھانچوں کی وجہ سے اسلام اور اقدار کا پاس رکھتے ہوئے چل رہا ہے مگر یورپ اور اس کے حواری ملک اخلاقیات کے کسی پیمانے پر پورا نہیں اترتے بجز ماحول کے نظم و ضبظ کو بر قرار رکھنےوالےضابطوں کے۔
اصل میں یہ تحریک اور جلوس صر ف جنسی اظہار اور اس اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی اک سنگین حرکت ہے جسے کسی طور بھی فراموش نا کیا جائے۔
عورت ہر صورت میں حیا کی تصویر ہے11/9کے بعد ہم اپنی مذہبی تصویر کو مہذب پیش کرتے کرتے ایسے سیکولر ہوئے کہ مڑ کے دیکھا ہی نہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم اُس رسول کے اُمتی ہیں کہ جن کی آمد سے یہ فیمینزم کا آغاز ہوا۔ ورنہ یہ جانتی نہیں کہ آمدِ رسولِ اکرمﷺ سے پہلے لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اسلام نے عورت کو عزت دی اسلام نے عورت کو آزادی دی، عورت کی آزادی اصل میں اس کااصل روپ ہے اس کا رعب و دبدبہ اس کی حیا میں ہے عورت کا زہد رسولوں کو بھی احترام کا قائل کر دیتا ہے۔ ورنہ کون سا باپ بیٹی آئے تو اپنی مسند چھوڑ کر احترام میں کھڑا ہوتا ہے عورت کے لیے ہر دور میں ہر اُفتاد میں سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کافی ہے۔
ورنہ میرا سوال ہے میری تمام بہنوں سے وہ کون سی وجوہات ہیں تلاش کریں کہ کیوں رسولِ اکرم ﷺ جنابِ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہاکی آمد پہ اپنی مسند کو چھوڑ کر اُن کے احترام میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے؟
سلام ہے کمشنر لاہور محترمہ رافیہ حیدر صاحبہ کو جنہوں نے اس سال لاہور میں خود عورت ہوتے ہوئے اس تماشے کی اجازت نہیں دی۔ خدا رافیہ حیدر صاحبہ کے حق میں ڈھیروں خوشیاں، عزتیں اور محبتیں رکھے اور میرا سلام میری ملت کی ہر ذہین اور بلند حوصلہ بہن کو جو اپنے کام سے اپنے گھر اپنے، ملک اور اپنے دین کا نام روشن کر رہی ہے۔