Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Adil Ahmad/
  4. Pehle Paron Ko Kat-te Hain Phir Urne Ko Kehte Hain

Pehle Paron Ko Kat-te Hain Phir Urne Ko Kehte Hain

پہلے پروں کو کاٹتے ہیں پھر اڑنے کو کہتے ہیں

کیا یہ بیوقوفی نہیں، پہلے پر کاٹو اور پھر اڑنے کو کہو۔ کیا کوئی اڑ سکتا ہے بغیر پروں کے؟ نہیں ہرگز نہیں، چلیں ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ایک پرندہ پکڑیں اور اس کے پر کاٹیں۔ اس کے پر کاٹنے کے بعد اس کو ہوا میں اس نیت میں اوپر پھینکیں تاکہ وہ اڑ سکے اور بلندیوں تک پہنچ جائے۔ جتنی بھی کوشش کرو کہ وہ اڑ جائے۔ وہ نہیں اڑ سکے گا اور اگر اڑ بھی گئے تو زیادہ بلندی تک نہیں پہنچ پائے گا۔

اس کو بھی چھوڑیں، یہ مثال لے لیں آپ ایک پرندے کا چھوٹا بچہ پکڑیں اور اس کو پنجرے میں بند کر دیں۔ اس کو اڑنے کے لیے کوئی ماحول نہ دو اور سارا سال اس کو پنجرے میں بند کرکے رکھو۔ اور جب وہ بڑا ہو جائے تو اس سے اڑنے کی امید رکھو تو وہ نہیں اڑ پائے گا۔ کیونکہ جو ماحول اس کے لیے درکار تھا آپ نے وہ ماحول اس کو فراہم نہیں کیا۔ یہی کچھ ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پہلے ان کے وہ پر کاٹے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ اڑنے کے قابل ہوتا ہے پھر ان سے اڑ کے بلندیوں تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔ وہ بیچارے نہ اڑ سکتے ہیں اور نہ ہی حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو وہ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا ہے جس ماحول میں وہ رہ کے کامیابی تک پہنچ پاتے ہیں۔

میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق چند ایسے عوامل ہیں جن کے نہ ہونے کی وجہ سے بعض نوجوان زندگی کے دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان سے ان کے والدین کی جتنی بھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ ساری بے سود رہ جاتی ہیں۔ ایک بچے کی کامیابی کے لیے اس کی کمیونیکیشن سکلز، خود اعتمادی، اور زبان (جس میں تعلیم دی جاتی ہے) آنا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ چیزیں کسی بچے میں نہیں ہوتی ہیں تو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔

بچے کو آگے بڑھنے کے لیے اس کی فیملی کا سپورٹ ضروری ہوتا ہے اور فیملی کی سپورٹ بچے میں نہ صرف خود اعتمادی پیدا کرتی ہے بلکہ اس کو ہر مشکل وقت میں حوصلے سے کام لینا سکھا دیتی ہے۔ اکثر بچوں میں خود اعتمادی نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی کی وجہ ان کی فیملی ہوتی ہے۔ ان کی فیملی ان کو اپنی مرضی سے کسی چیز کے بارے میں فیصلہ لینے نہیں دیتے ہیں تو وہ زندگی میں خود کبھی فیصلہ نہیں لے پاتے ہیں اور فیصلہ لینے میں اپنے فیملی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اگر بندہ خود فیصلہ لینے کے قابل نہ ہو تو وہ کیسے زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے۔

اکثر فیملیز بچوں پہ قدغن لگاتی ہیں اور دوستوں کے ساتھ باہر چکر لگانے نہیں دیتے ہیں۔ ان کے لیے کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا ہے یہاں تک بچوں کے لیے حدود مقرر کر دیتے ہیں۔ جب وہ باہر جا کے لوگوں کے ساتھ نہیں ملتا ہے اور گھر میں ہی محصور ہو کر رہ جاتا ہے تو ان کی کمیونیکیشن سکلز متاثر ہو جاتی ہے۔ اور جن کی کمیونیکیشن سکلز اچھی نہیں ہوتی ہیں تو وہ لوگوں کے سامنے اپنے علم اور خیالات کا صیحیح طرح سے اظہار نہیں کر پاتے ہیں اور زندگی کے دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور ان کی فیملیز ان کی صلاحیتں چھین لیتے ہیں اور پھر انہیں چھا جانے کو کہتے ہیں۔

پاکستان میں سارے سکول انگلش میڈیم اسکول ہیں اور علم حاصل کرنے کا ذریعہ بھی انگریزی زبان ہے۔ اکثر بچوں کو میٹرک کرنے کے بعد بھی انگلش نہیں آتی ہے۔ وہ دس، بارہ سال تعلیم کے میدان میں صرف کرکے بھی علم حاصل نہیں کرتے ہیں۔ جس زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اگر وہ زبان نہ آتی ہو تو خاک علم حاصل کیا جائے گا۔ دس، بارہ سال اسکولوں کو دے کر بھی بچہ زبان نہیں سمجھتا ہے تو وہ علم کب حاصل کریگا۔

والدین کو چاہیئے کہ وہ پہلے اپنے بچوں کو زبان سکھائے، پھر بعد میں سکول میں داخلہ کروائے تاکہ وہ علم حاصل کر سکے۔ اگر یہ تینوں چیزیں فیملیز اپنے بچوں کو مہیا نہیں کرتی ہیں تو وہ ان سے چھا جانے کی امید بھی نہ رکھیں۔ پہلے ان کے پروں کو کاٹتے ہیں پھر ان کو اڑنے کو کہتے ہیں یہ سراسر بیوقوفی ہے۔

Check Also

Ulta Sinfi Kirdar

By Najeeb ur Rehman