Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adam Hussain
  4. Quetta Aur Traffic Qawaneen

Quetta Aur Traffic Qawaneen

کوئٹہ اور ٹریفک قوانین

2017 کو جب کوئٹہ میں مسلسل ہاسٹل میں رہنے کے ارادے سے آیا تو اس وقت بلوچستان کے ایک چھوٹے گاؤں سے کوئٹہ میں آنا تو بہت حد تک اچھا ہی لگا کہ یار یہاں لوگ پولیس مین کے اشاروں پر چلتے ہیں اور رکتے ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ جب لاہور اور دوسرے شہروں کا سفر ہوا تو پھر محسوس ہوا یار ہم تو حالاتِ حاضرہ سے بہت پیچھے ہیں۔

ان شہروں میں پتا نہیں کتنے خوبصورت Underpass اور اس کے علاوہ اتنے بہترین U-Turn ڈیزائن کیے ہوئے تھے کہ کوئٹہ ان کے سامنے اُس گاؤں نما لگنے لگا جس میں میری مٹی پائی جاتی ہے۔

لاہور و دیگر شہروں میں جب ٹریفک قوانین کے سگنلز کو دیکھا میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ چھٹی، ساتویں کلاس میں تو یہ چیزیں ہم نے رٹ لی تھیں کہ سرخ اشارے پہ رکنا ہے، زرد اشارے پہ چلنے کیلئے تیار ہونا اور سبز اشارے پہ روانہ ہونا ہے وغیرہ۔

مگر یہ چیزیں وہیں جاکر عملاً دیکھ لئے تو اندازہ ہوا کہ یہ وہ بلائیں ہیں جو ہم نے لائین بہ لائن رٹ لی تھیں۔ ان شہروں کو دیکھ کر ایک Discipline دیکھنے کو ملا جو ان منظم ٹریفک بہاؤ کو Miantain کئے ہوئے تھے۔

اگر ان قوانین کو کوئی توڑنے کی کوشش کرتا تو سامنے کھڑا ٹریفک پولیس ان کے موٹر کی چالان کاٹ لیتا، جس کے ڈر سے اکثر لوگ یہ قوانین توڑنے کی کوشش نہ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ چوک چوراہوں پہ لگے زیبرا کراسنگ اور روڈ کے کناروں فٹ پاتھ دیکھ کر یہ فیصلہ طے کر لیتا تھا کہ یار شہر کے اس روڈ سے بہتر کوئی روڈ نہیں ہوسکتا۔ مگر پھر اچانک کسی ڈبل روڈ پر جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کے بیچ سبز درختوں کو دیکھ کر دل یہ فیصلہ فوراً تبدیل کر لیتا۔

پنجاب کے اکثر و بیشتر شہر ایسے ہی بہترین نظام کے ساتھ Orientated ہیں۔ مگر جب پنجاب اور دیگر علاقوں کی شہر گھوم کر دیکھ لیں تو احساس ہوا کہ نہیں یار کوئٹہ کو شہر کا نام دینا بس آبادی تک محدود رکھا جائے تو بہتر ہے، ورنہ تو زیبرا کراسنگ اور U-Turns تو کجا یہاں تو کوئی ٹریفک قوانین ہی نہیں ہیں اور نہ کوئی پراپر فٹ پاتھ!

کوئٹہ میں ایک اصول ہے جو بھی کوئی نیا وزیراعلٰی آئے گا تو وہ ازسر نو فٹ پاتھ کا کام شروع کرے گا اور اس کے جانے تک یہ پروجیکٹ آدھے میں آکر رک جائے گا، اور جب دوسرا کوئی آئے گا تو وہ پھر اس کو ختم کرکے کوئی اور کام شروع کر دے گا۔

یوں کوئی Long Term Project اور نا کوئی ایسا نظام جو اس کو اس قابل بنا دے کہ وہ کئی سال چل سکے۔ یہاں تک کہ یہاں کہ چوک چوراہوں کے نام بھی ہر سال تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور رہی بات ٹریفک قوانین کی وہ مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ یار یہ چوک پہ بیچارے پولیس سپاہیوں کو لاکھڑا کردیتے ہیں چوکی لگا لیتے ہیں۔

اس سے تو کئی گنا سستا اور باضابطہ سسٹم ٹریفک قوانین لگانے ہیں مگر اتنے سالوں سے کسی کو بھی بات سمجھ نہیں آرہی۔ قوانین کے خرچے تو آپ کے بے صبری عوام کے چالان ہونے سے نکل جانے تھے اور یہ قوم سمجھ بھی تب جاتی جب اس کی جیب سے کچھ پیسے نکلتے ورنہ تو یہ بے چارے سپاہیوں کے اشاروں پہ کہاں رکنے والی قوم ہے۔

حالانکہ کوئٹہ میں تو یہ واقعہ بھی پیش آیا تھا کہ یہاں اک زورآور شخص نے ایک ٹریفک پولیس والے کو اپنی گاڑی سے کچل ڈالا تھا۔ اگر آپکو اس قوم کی تربیت کرنی ہے تو پھر مضبوط نظام لائیں جس سے ملک کو بھی فائدہ ہو، قوم کی تربیت بھی ہوجائے اور خاص کر آپ کے جوان جو چار، پانچ سپاہی اک چوک پہ کھڑے ہوکر اپنا Energy اور وقت ضائع کر رہے ہیں ان سے آپ کوئی اور کام لے سکتے ہیں۔

Check Also

Imran Khan Ki Rihai Deal Ya Dheel

By Sharif Chitrali