Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abubakr Syedzada
  4. Sochon Ka Tazad

Sochon Ka Tazad

سوچوں کا تضاد

ہم ہر شام چوپال جاکے ستھ پر بیٹھتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر بزرگ اور چند مجھ جیسے بزرگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ ہم ہر روز وہاں بیٹھ کر گھنٹوں معنیٰ خیز گفتگو کرتے ہیں۔ ہم وہاں قہوہ پیتے ہیں اور حقے کے کش لگاتے ہیں۔ ایک عجیب سی بات ہے کہ پیالی سے اٹھتی ہوئی بھاپ اور منہ سے نکلتا ہوا دھواں محفل یا بزم کو مزید ادبی کر دیتا ہے۔ لیکن خیر گزشتہ دنوں ہم نے مشورہ کیا کہ کیوں نا ہم سیاست، آئین اور قانون پر بات کرنے کے لئے کسی اچھے پڑھے لکھے بندے کو بلائیں۔ جو آکے ریاست آئین اور قانون پر بات کرے۔

اس سے ذرا ہماری گفتگو کا ذائقہ بھی بدل جائے گا اور اچھی معلومات بھی ملیں گی۔ کیونکہ ستھ میں تو تہمند لنگی اور سفید پگڑی باندھے چند بزرگ آتے ہیں یا ہم جیسے بیکار۔ تو ہم نے سوچا کیوں نا کسی شہری بابو کو بلائیں جو یونیورسٹی سے فارغ ہو۔ پینٹ شرٹ پہنتا ہو۔ صبح ناشتے میں بریڈ کھاتا ہو۔ ہر روز تازہ شیو کرتا ہو۔ ممکن ہے ایسی روٹین رکھنے والے شخص کی زندگی کا تجزیہ کچھ اور ہو۔

ہم نے شہر کے ایک سیاسی و آئینی امور کے ماہر کا انتخاب کیا۔ ہم نے ان سے وقت لیا۔ ہمارا وقت طے پا گیا۔ وقت مقرر پر چوپال میں ستھ بچھ گیا حقے رکھ دئیے گئے۔ پیچیدہ معاملات کو سمجھنے کے لئے وائٹ بورڈ بھی رکھ دیا گیا۔ مقررہ وقت پر پروفیسر صاحب بھی تشریف لے آئے۔ گاڑی سے اترتے ہی صاحب نے نظر حقارت سے ہمارے محل اکبری یعنی چوپال کو دیکھا۔ ٹائی درست کی چال میں ذرا مزید تکبر شامل کیا اور ہماری ککھوں کی کلی میں داخل ہوئے۔

ہم سب نے کھڑے ہوکر اسقبال کیا۔ چائے پانی کے بعد چاچا بختو نے پروفیسر صاحب سے کہا استاد جی حقہ پیو گے؟

پروفیسر صاحب نے جواب دیا جی میں حقہ نہیں پیتا ویسے بھی یہ مضر صحت ہوتا ہے۔

تو چاچا بختو نے کہا ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو آپ ولایت سے پڑھ کر آئے ہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ رات کو جب کمرے میں اکیلا ہوتا ہوں بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور کان کسی آواز کو سننا چاہتے ہیں دل کسی کو پاس محسوس کرنا چاہتا ہےتو ہلکا سا اس کا کش لگا کے اس کی گڑ گڑ سے دل کو ایک سکون فریبی دے لیتے ہیں۔ استاد جی یہ حقہ ہمارے تو ماڑے وقت کا ساتھی ہے ہم اس کا گلہ نہیں سنیں گے۔ ہم سب مسکرائے اور پروفیسر صاحب نے کہا کہ کیوں نا اب ہم اپنے ٹاپک پر بات کریں؟

سب نے کہا جی ضرور۔

پروفیسر صاحب اٹھ کے وائٹ بورڈ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ تو میں نے اپنی جیب سے کاپی پنسل نکال لی۔ چاچا بختو نے پوچھا پتر یہ کیا؟

میں نے جواب دیا کہ چاچا میں پروفیسر صاحب کی اہم باتوں کے نوٹس لوں گا۔ چاچا جی کو آئیڈیا اچھا لگا اور مجھ سے ایک ورق بھی مستعار لے لیا۔

پروفیسر صاحب نے بھی جیب سے آدھی درجن کے قریب مختلف رنگوں کے مارکر نکال کر بورڈ پر تین چار رنگوں میں بڑے سائز کا لفظ "آئین پاکستان" لکھ دیا۔ وہ آئین پاکستان پر لیکچر دینا چاہتے تھے۔ بلاشبہ یہ ایک اہم عنوان تھا۔ انھوں نے تمہید میں کہا کہ قانون کی عزت کرنی چاہئے آئین کا احترام کرنا چاہئے اور سارا لیکچر اسی بات پر لگا دیا۔ انھوں نے آئین کے کچھ آرٹیکلز کا حوالہ بھی دیا۔ ایک گھنٹے کے اس لیکچر کے دوران موصوف کبھی وائٹ بورڈ کی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف پائے گئے۔ شعلہ بیانی اور جذبات کا عالم یہ تھا کہ ہر دس منٹ بعد موصوف پانی بھی پیتے۔

لیکچر ختم ہوا تو میں نے چاچا بختو کا ورق دیکھا جو بالکل خالی تھا۔ میں نے پوچھا چاچا آپ نے کچھ لکھا کیوں نہیں؟

چاچا جی نے کہا کہ میں اس آئین کے نوٹس نہیں لوں گا۔

میں نے پوچھا پھر آپ کس آئین کے نوٹس لیں گے؟

تو چاچا بختو نے بہت پیارا جواب دیا۔ کہا پتر! میں اس آئین کے نوٹس لوں گا جو غریب کے لئے روٹی کی بات کرتا ہے میں اس کو لکھوں گا جو بے گھروں کے لئی چاردیواری کی بات کرتا ہے میرا آئین وہ ہوگا جو بیواؤں کی پردہ دار کی بات کرتا ہے۔ میں اس قانون کی عزت کرونگا جہاں یتیموں سے مال کمایا نا جائے بلکہ انھیں کچھ کھلایا جائے۔

چاچا بختو نے کہا اس دھرتی پر ہونے والے مظالم پر عرش پر بیٹھا خدا جلال میں آ کر ہم پر قہر نازل کر دیتا ہے لیکن ریاست کے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

چاچا نے کہا ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد بچے ایسے ہیں جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ ان کی پوری طرح سے مناسب نشونما نہیں ہو پارہی۔ پینتالیس فیصد بچے ایسے ہیں جن کی پوری طرح سے نشونما نا ہونے کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ جب ان بھوکوں کے پیٹ پالنے کا وقت آتا ہے جب ان بے لباس جسموں کے ڈھانپنے کا ٹائم ہو جب ان بے گھروں کو سر چھپانے کےلئے ٹھکانہ چاہئے ہو پھر کہاں ہوتا ہے یہ آئین؟

آپ آج بھی بلوچستان اور سندھ میں جاکے دیکھ لیں ایک سال قبل آنے والے سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگ آج بھی خیموں میں اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ پیسوں کے عوض اپنی کم عمر بچیوں کو فروخت تک کرنے پر مجبور ہیں لیکن آئین ہے تو بس بات ہی اپنے قائم رہنے کی کرتاہے۔

سندھ کے کچھ اضلاع میں آج بھی بچوں کی نشونما کی کمی کیوجہ سےہر تین میں سے دو بچے اس بیماری کی وجہ سے مررہے ہیں۔ لیکن بھٹو اور آئین تو وہاں پر بھی زندہ ہیں۔

چاچا بختو نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور کہا ان مرتے ہوئے بچوں کو زندہ آئین اور بھٹو دیکھ رہا ہے اور مسکر کر کہہ رہا ہے کہ "میں تو زندہ ہوں نا"۔

عام آدمی کا مسئلہ آئین کا ٹوٹنا یا برقرار رہنا نہیں ہے اسے کھانے کو روٹی چاہئے پہننے کو کپڑا اور رہنے کو گھر لیکن یہ تمام بنیادی سہولیات آئین نے نا تو جمہوریت میں عوام کو دئیے اور نا مارشل لاء میں۔

ورلڈ بنک پاکستان ڈویلپمنٹ رپورٹ (2022-23) کے مطابق ایک سال میں ایک کروڑ پچیس لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ غربت کی ںشرح اب34% سے بڑھ کر40% تک پہنچ چکی ہے۔

ملک میں آئے روز پیٹرول، گیس، بجلی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ کوئی بندہ جب بازار شاپنگ کے لئے جائے تو واپسی پر صرف تھکے ہوئے کندھے اور خالی تھیلا اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیونکہ تمام اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور پہنچ چکی ہیں جبکہ حکمران طبقہ چار کروڑ کی لسی نوش فرما جاتا ہے اور عوام بلک بلک کے مر رہی ہے۔

گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب

بچے مگر غریب کے فاقے سے مرگئے

میں نے کہا تو کیا آپ آئین کے بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں؟

چاچا بختو مسکرائے اور کہا نہیں بیٹا! میں یہ کہتا ہوں کہ مولوی صرف اتنا دین بتاتے ہیں جتنے دین کی مولوی کو ضرورت ہے وہ بات نہیں بتاتے جس کی ہمیں ضرورت ہو۔ یہ لوگ باقی آئین تو بیان کرتے ہیں لیکن آئین کے آرٹیکل آٹھ سے اٹھائیس تک بیان نہیں کرتے جن میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے۔

ہم سبھی لوگ یہ سوچنے لگے کہ واقعی ہماری سوچوں میں یہ تضاد کیوں ہے؟

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan