Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abubakr Syedzada
  4. Pakistan Mein Jamhuriat Nakam Kyun? (2)

Pakistan Mein Jamhuriat Nakam Kyun? (2)

پاکستان میں جمہوریت ناکام کیوں

ہم نے گزشتہ کالم میں کچھ سوالات اٹھائے تھے اور میں نے کہا تھا کہ اپنے اگلے کالم میں ان کے جوابات زینت قرطاس کروں گا۔ پاکستان میں فوج بہت طاقتور ہے۔ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتی ہے۔ آخر اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ قیام پاکستان کے بعد جلد ہی پاکستان کے بانی لیڈران ایک ایک کرکے داغ مفارقت دیتے چلے گئے۔ آپ یوں کہیں کہ پاکستان قائم تو ہوگیا، لیکن ساتھ ہی یتیم بھی ہوگیا۔ ہمیں پاکستان کے أئین میں ریمفامز کرنے کا موقع ہی نہی ملا۔

آج بھی ہم وہی فوج کا نظام لیکر چل رہے ہیں جس میں برطانیہ کی آرمی ہم پر راج کرتی تھی۔

یہ ریفامز بھی انڈیا کے بانی رہنماء جواہر لال نہرو صاحب نے کیں۔ اگر ہم ان ریفامز پر عمل کریں تو بہت حد تک فوج کو اس کے دائرے میں کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان ریفامز کا جائزہ لیتے ہیں۔

جواہر لال نہرو صاحب نے پہلا کام یہ کیا کہ انڈین آرمی کو انڈین وزارت دفاع کے ما تحت کر دیا۔ انڈین فوج کاچیف سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے یہ نظام اس حد تک قابل عمل ہےکہ انڈین چیف آج بھی وزارت دفاع سے باقاعدہ وقت لے کر وزیر دفاع سے ملتا ہے۔

دوسرے نمبر پر جواہر لال نہرو صاحب نے انڈین آرمی کو چار کمانڈز میں تقسیم کیا۔ ان تمام کمانڈز کا ایک سربراہ مقرر کیا۔ اور اس سربراہ کو بھی آرمی چیف کے برابر کا عہدہ دیا گیا۔ اور سب سے سینئر فرد کو چیف مقرر کیا گیا۔

یوں انڈین چیف کسی کمانڈ کا سربراہ نہیں ہوتا لیکن کمانڈز کے سربراہان کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے۔ انڈین چیف کو کسی بھی ایکشن کے لئے ما تحت کمانڈز کو حکم نہیں دینا ہوتا بلکہ انھیں اس بات پر قائل کرنا ہوتا ہے۔

(نوٹ۔ اب ان کمانڈز کی تعداد کو بڑھا کر سات کر دیا گیا ہے)

تیسرا کام نہرو صاحب نے یہ کیا کہ علیحدہ سے ایک انٹیلجنس کا محکمہ بنایا۔ جس کا کام صرف فوج کی جاسوسی کرنا ہے۔ یہ محکمہ فوج کی اندرونی جاسوسی کرکے حکومت کو رپورٹ کرتا ہے۔

ہندوستان کی انٹیلجنس ایجنسی "راء" بھی ہندوستانی فوج کے ماتحت نہیں ہے۔ جبکہ ہماری "آئی ایس آئی" کا چیف آج بھی فوج سے ہی لگایا جاتا ہے۔

یہی وہ تمام ریفامز ہیں جو قیام ہندوستان کے بعد نہرو صاحب نے کیں اور آج تک انڈیا کو انہوں نے مارشل لاء سے محفوظ کر لیا۔ جبکہ ہمارے ساتھ برما اور بنگلہ دیش میں بھی مارشل لاءز لگے۔ یہاں تک کہ (1966) میں سری لنکا میں بھی مارشل لاء کی ایک کوشش ہوئی جس کو ناکام بنا دیا گیا۔ اس کوشش کو کرنے والے جنرل صاحب گرفتار ہوئے اور سزا دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم کونسے کام کرکے فوج کو اس کے دائرے تک محدود کر سکتے ہیں۔

پہلا کام تو یہ کہ وزیراعظم اور صدر کی سیکیورٹی فوج سے لے لی جائے۔ کیونکہ مارشل لاء کے وقت سب سے پہلے وہی لوگ فوج کے کام آتے ہیں جو ان کی سیکیورٹی پر معمور ہوتے ہیں۔ اگر صدر اور وزیراعظم کی سیکیورٹی فوج کے پاس نہیں ہوگی تو بہت حد تک مارشل لاء اور فوج کو اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ایک علیحدہ سیکیورٹی کا ادارہ بنا کے یہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے۔

دوسرے نمبر پر ایک علیحدہ سے سیکیورٹی سیٹ آپ بنا کے جو وزارت دفاع کے ما تحت ہو اس کو ایٹم بم کی سیکیورٹی دےدی جائے۔

ایٹم بم کی سیکیورٹی بھی فوج کو اختیارات میں تجاوز کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

نمبر تین ہمیں ایک ایسی انٹیلیجنس تخلیق کرنی ہوگی جو فوج کی اندرونی خبروں کو حکومت تک پہنچائے اور پھر اسکا مناسب سد باب کرے۔

نمبر چار ہم بھی اگر اپنی فوج کو مختلف کمانڈز میں تقسیم کر دیں اور ان کے سربراہان کو چیف کے برابر کے اختیارات دے دیں تو بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

نمبر پانچ ہمیں فوج کے کاروبار پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے۔ فوج کیا کاوبار کرتی ہے اور کیسے یہ بحث ایک الگ کالم کی متقافی ہے اور جلد اس پر تحریر لکھوں گا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کر سکتا ہے؟

یہ تمام کام کسی بھی سیاستدان کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ موجودہ سیاستدان ہر وقت کسی ایسی ڈیل کے چکر میں ہوتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی طرح کی کوئی ڈیل ہو جائے اور حکومت کی کرسی پر تشریف رکھنے کا موقع مل جائے اور ہمارے بانی رہنماء اس دنیا میں ہیں نہیں جو یہ ریفامز کر دیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب فوج سےہی کوئی مرد حر اٹھے اور خود احتسابی کرے اور سیاستدانوں کو کہے کہ آپ ریفامز کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

میری لکھی ہوئی تمام باتیں حتمی نہیں ہیں یہ بس میری رائے ہے کہ ملک کو مارشل لاءز سے بچانے کے لیے یہ کام مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہمارے حالات ایسے کیوں ہیں کیونکہ

پھول رت میں خزاں کس طرح چھا گئی

کونسا موڑ ہم سے غلط مڑ گیا۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad