Izhar e Raye Ki Azadi
اظہار رائے کی آزادی
آج سے چار سو سال قبل رات کے وقت ایک لمبی داڑھی والا آدمی اپنی ٹیلیسکوپ میں آنکھیں جمائے کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھتے دیکھتے بہت خوش ہوئے جا رہا تھا۔ لمبی داڑھی والے اس آدمی نے اپنی ٹیلیسکوپ سے جیوپٹر اور اس کے چار چاندوں کو زمین پر بیٹھ کر دیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنی تھیوری کہ ہماری زمین کے علاوہ اور بھی اس کائنات میں سیارے ہیں۔ جو سورج کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ یہ لمبی داڑھی والا آدمی گلیلیو تھا۔ اس نے اپنی اس تھیوری کا چرچا کرنا شروع کر دیا۔ گلیلیو کی یہ تھیوری چرچ کی دینی تعلیمات کے خلاف تھی۔ لہذا گلیلیو پر کیس چلانے کا فیصلہ ہوا۔
عدالت میں گلیلیو کے خلاف کیس چلایا گیا۔ اس پر فرد جرم عائد کی گئی۔ اور اس کو عمر بھر نظر بند رکھنے کی سزا سنائی گئی۔ اور اس کی تعلیمات پر ہمیشہ کے لئے پابندی لگا دی گئی تو گلیلیو مسکرانے لگا۔
گلیلیو سے کسی نے پوچھا مسکرا کیوں رہے ہو؟ تو گلیلیو نے جواب دیا کہ مجھے نظر بند کر رہے ہو لیکن زمین اور دوسرے سیارے گھومتے تو پھر بھی رہیں گے۔
اس کہانی میں بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے کہ آ پ سچ بولنے والے کا منہ تو بند کر سکتے ہیں اس کا گلہ دبا سکتے ہیں مگر سچ کو کبھی نہیں چھپا سکتے کیونکہ سچ سامنے آئے گا کیوں؟ کیونکہ وہ سچائی ہے حقیقت ہے۔
یہ ازل سے قانون ہے کہ بجائے اس کے کہ سچ بولنے والے کی بات کو تسلیم کیا جائے اور برائی کے لئے کھڑا ہوا جائے۔ لوگ سچ بولنے والے کو ہی اٹھا لیتے ہیں۔
"کیونکہ نا ہوگا بانس نا بجے گی بانسری"
ایسا ہی ایک واقعہ ہمیں پچھلے دنوں دیکھنے کو ملا۔ معروف صحافی اور یو ٹیوبر اسد علی طور کو اچانک ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا۔ اور گرفتار بھی ایسے موقع پر کیا جب اسد علی طور ایف آئی اے میں اپنی پیشی پر گئے ہوئے تھے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف سے ان کے بلے کا نشان چھین لیا۔ اس وقت سے سپریم کورٹ کے معزز ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک ایک کردار کشی کرنے والی مہم شروع ہوگئی۔
اس جے آئی ٹی نے ایک درجن سے زائد صحافیوں کو نوٹس جاری کیے۔ ان صحافیوں میں اسد طور بھی شامل تھے۔ اسد طور نے ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر اسلام آ باد ہائیکورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری دائر کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسد علی طور کی ضمانت مسترد کرکے انھیں انکوائری کا حصہ بننے کی نصیحت کی اور متعلقہ ادارے کو یہ ہدایت کی کہ انھیں حراساں نہ کیا جائے۔
اسد علی طورایف آئی اے کے سامنے اپنے وکلاء کے ساتھ پیش ہوئے۔ ایف آئی اے والوں نے وکلاء کو ساتھ جانے سے روک دیا اور اسد علی طور کو گھنٹوں وہاں بٹھا کے رکھا۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب وکلاء نے ایف آئی اے والوں کو زیادہ مجبور کیا کہ انھیں اسد علی طور کے بارے میں بتایا جائے تو انھوں نے کہا کہ اسد علی طور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اسد علی طور پر درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ اداروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور وہ اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان الزامات کے ساتھ ہتھکڑیاں لگا کے اسد علی طور کو عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ مانگا گیا۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ جسمانی ریمانڈ کس لئے مانگ رہے ہیں تو ایف آئی اے نے اپنا موقف اپنایا کہ ہم اسد علی طور سے ان کے سورس پوچھنا چاہتے ہیں جو کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی مخالف ہے۔ عدالت نے اس بات کے لیے بھی ایف آئی اے کو اسد علی طور کا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ یہ ریمانڈ بڑھتا رہا اور ٹوٹل بارہ دن اسد علی طور ایف آئی اے کی حراست میں رہے۔ اور آٹھ دن انھوں نے جیل میں گزارے۔ لیکن اسد علی طور نے اپنے سورس نہیں بتائے آخر کار انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
آپ اندازہ کریں ایک سچ کو دبانے اور سچ بولنے والے کی آواز کو دبانے کے لیے ایک ادارے نے کس طرح ملکی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ کس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری گئیں لیکن پھر بھی سچ کو سچ بولنے والوں کو وہ سر نگوں نہیں کر سکے۔ کیوں؟ کیونکہ سچ تو پھر بھی سچ ہے۔
اس ملک میں سچ بولنے والوں کے ساتھ کیا نہیں کیا گیا۔ ارشد شریف کو شہید کیا گیا۔ حامد میر صاحب کو ٹارگٹ کیا گیا۔ مطیع اللہ جان کو اغواء کیا گیا۔ ابصار عالم کو گولی ماری گئی۔ عمران ریاض کو متعدد دفعہ گرفتار کیا گیا۔ اور اب اسد علی طور کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ ٹارگٹ کرنے والوں کا نشانہ اگر صرف ایک فرد ہو تو وہ صرف اس کا تعاقب کریں مگر اتنے لوگوں کا پیچھا کرنا اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹارگٹ کوئی خاص فرد نہیں بلکہ ایک ایسی سوچ ہے جو سچ بولتی ہے اور وہ سچ پھیلانا چاہتے ہے اس لیے وہ لوگ انھیں ٹارگٹ کرتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ سچ سے باز نہیں آئیں گے۔
میرے خیال سے ٹارگٹ کرنے والوں کو بھی یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ گلیلیو کو پھانسی پہ لٹکا دینے سے زمین کی حرکت نہیں رک سکی اور صحافی کو دبا لینے سے سچ کو نہیں دبایا جا سکتا سچ ضرور ظاہر ہوگا۔ کیونکہ
سچ تو پھر سچ ہے نا
بقول شاعر:
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
میرا کالم پڑھنے کا بہت شکریہ ان شاءاللہ آپ کی دعاؤں سے جلد ہی کسے نئے موضوع پر قلم اٹھاؤں گا۔