Afghan Mahireen
افغان مہاجرین
آپ اگر برصغیر کی اقوام سے واقف ہیں تو جولاہا قوم کو بھی جانتے ہوں گے۔ یہ بہت تاریخی اور اہم قوم ہے۔ مگرپھر بھی میں ان کے بارے میں عرض کیے دیتا ہوں۔ جولاہا قوم کے لوگ کپڑے دھاگے کھیس اور کھڈیوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ بہت ملنسار اور خوش مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ یہ بات کو بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ اپنے اسی بھولے پن میں بہت عجیب و غریب اور حیران کن کام کر جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جولاہوں کا ایک بابا ہاتھ میں دو پلیٹیں اٹھائے جارہا تھا۔ کسی نے پوچھا بابا جی ہاتھ میں کیا ہے؟ بابا جی نے بتایا کہ چاول ہیں۔ اس نے کہا بابا جی دیکھنا بھول سے گرا ہی نا دینا۔
تو بابا جی نے کہا "پتر ہن اوہ جولاہے نئیں رہے"، یعنی اب وہ جولاہے نہیں رہے جو پہلے تھے۔
اور لفظ نئیں پر ایسا اشارہ کیا کہ دونوں پلیٹیں الٹ دیں اور چاول گر گئے۔
ایسی ہی اب ہماری بھی حالت ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت نے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے اور یکم نومبر تک تمام مہاجرین کو واپس جانے کے احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ افغان مہاجرین اب وہ نہیں رہے۔ ذیل میں ہم اس امر کی وجوہات، اقدامات، اور نتائج پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اس کہانی کا آغاز (1978) میں ہوا۔ جب روس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کیں اور افغانستان پر حملہ کر دیا۔ افغانستان کی عوام پر اپنے ملک کی زمین تنگ ہوگئی۔ ہر طرف خون اور موت کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ کھانے کو روٹی تھی نا پینے کو پانی، سر چھپانے کو چھت تھا اور نا بدن ڈھانپنے کو کپڑا، مریضوں کے لئے مرہم پٹی کا سامان تھا نا لاشیں دفن کرنے کی کوئی جگہ۔ ایک ایک قبر میں کئی کئی لاشیں دفن ہو رہی تھیں۔ دنیا کی سپر پاور حرام کے پیسے سے خریدا ہوا اسلحہ غریب افغانستانیوں پر برسا رہا تھا۔ یوں افغانستان میں افغانیوں کا رہنا مشکل ہوگیا۔
پاکستان نے اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے لئے پناہ کا اعلان کر دیا۔ پاکستان نے اپنے بارڈر کو افغان عوام کے لئے کھول دیا۔ یوں اس اعلان پر چار لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوگئے۔ پاکستان نے کیمپس بنائے جس میں یہ افغان مہاجرین قیام کر رہے تھے۔ پاکستان نے ان کی خوب مہمان نوازی کی۔ افغان ہمارے ہمسائے بھی تھے، مسلمان بھائی بھی اور مظلوم بھی۔ یوں ان کے ساتھ ہمارے بہت سے رشتے تھے۔ اس مہمان نوازی کو دیکھ کر اگلے دس سال میں اس تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا اور افغان مہاجرین کی تعداد چالیس لاکھ ہوگئی۔ پاکستان نے ان مہاجرین کی خوب مہمان نوازی کی۔ پھر یہ مہاجرین خود کام کرنے لگے۔ یوں انھیں جائیداد اور کاروبار کی بھی اجازت دے دی گئی۔ اب افغان مہاجرین اچھے خاصے کاروبار اور جائیداد کے مالک ہیں۔
پاکستان میں اب دوبارہ دھشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔ آئے روز خودکش حملوں کی خبریں آرہی ہیں۔ رواں سال جنوری سے لے کر اب تک تقریباً چوبیس خودکش حملے پاکستان میں ہوچکے ہیں جس میں سے چودہ حملے افغان شہریوں نے کیے۔ یعنی آپ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب افغان مہاجرین جولاہوں کی طرح وہ نہیں رہے۔
یہ کاروبار کرنے لگے ہیں، جاگیردار بن چکے ہیں اور اب خود کو ایک طاقت تصور کرتے ہیں جبکہ پاکستان نے انھیں انسانی ہمدردی اور ترس کرکے آنے کی اجازت دی تھی۔
افغان مہاجرین کے اسی رویے کی وجہ سے پاکستان حکومت اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کو یکم نومبر تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں اور کاروبار بیچ کر یکم نومبر تک اپنے وطن واپس چلے جائیں ورنہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد افغان مہاجرین کو پناہ دینے والوں اور ان کی سہولت کاری کرنے والوں کے خلاف بھی کڑا ایکشن لیا جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت اس انخلاء کو کیسے ممکن بنائے گی؟ پاکستان میں اس وقت تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ ان کی تین اقسام ہیں۔
پہلی قسم وہ ہے جو افغان پاسپورٹ رکھتے ہیں اور بذریعہ ویزہ پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں افغان بذریعہ تزکرہ پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ تزکرہ ایک قانونی دستاویز ہے جو ڈیورنڈ لائن (پاک افغان بارڈر) کھینچنے کے بعد دونوں اطراف میں موجود خاندانوں کی رشتہ داریوں کی سہولت کے لئے جاری کیا جاتا ہے۔ اس میں افغان اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے کچھ دیر کے لئے آتے ہیں اور پھر ان کا قیام بھی مارشل لاء کی طرح طویل ہوجاتا ہے۔
تیسری قسم کے افغان مہاجرین یخ قسم کے غیرقانونی ہیں۔ یعنی وہ افغان جو غیر قانونی طریقے سے سرحد پر کھڑی دنیا کی نمبر ون فوج کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بارڈر پار کرتے ہیں اور پھر رزق حلال کماتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت تیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ کچھ مہاجرین امریکہ کے جانے کے بعد واپس چلے گئے تھے۔ ان میں سے گیارہ لاکھ مہاجرین ایسے ہیں جو تیسری قسم میں آتے ہیں۔ یعنی بالکل غیرقانونی جن کے پاس دکھانے کو سوائے چہرے کے اور کچھ بھی نہیں۔
پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل کام ہے کہ ان کو ملک سے نکالے کیونکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم اس حوالے سے پاکستان پر زور ڈال رہی ہے کہ پاکستان ایسا نا کرے لیکن پاکستان بھی افغان کے رویہ اور پاکستانی حالات کے پیش نظر اس وقت تک اپنے فیصلے پر کاربند ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس بھیج کر ہی چھوڑے گا۔
اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پینتالیس سال کے بعد پاکستان اچانک اتنا بڑا فیصلہ کیوں کررہا ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے اور ہوسکتا ہے پہلے کا کالم پڑھنے سے آپ کو اس بات کا اندازہ ہوبھی گیا ہو کہ افغان اب دھشت گردی اور اسمگلنگ جیسے دھندوں میں ملوث ہونے لگے ہیں۔ جس سے پاکستانی حکومت کو یہ ایکشن لینا پڑ رہا ہے۔
اس فیصلہ کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان میں ہونے والی دھشت گردی کی اکثر کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں اور کچھ کی تو انھوں نے ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ پاکستان حکومت نے افغان حکومت سے ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا تو افغان حکومت نے اسے ہوا میں اڑا دیا سو پاکستان اتنا بڑا ایکشن لینے پر مجبور ہوا کیونکہ
افغان اب وہ نہیں رہے۔