Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Quran Majeed Ki Toheen Bad Tareen Dehshat Gardi Hai

Quran Majeed Ki Toheen Bad Tareen Dehshat Gardi Hai

قرآن مجید کی توہین بدترین دہشت گردی ہے

سویڈن میں اسلام دشمن مکروہ و ملعون عناصر نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کو جلا کر بدترین جہالت و حیوانیت کا ثبوت دیا ہے۔ قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جگر پاش پاش کر دیے ہیں۔ ہر مسلمان رنجیدہ ہوا اور ہر دل تکلیف اور غم و غصہ سے دوچار ہے۔ ڈینمارک کی انتہا پسند تحریک "ہارڈ کورس" کے رہنما راسموس پالوڈن نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کو نذر آتش کر کے بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔

قرآن مجید کی توہین پر عالم اسلام کا کوئی فرد بھی خاموش نہیں رہ سکتا۔ قرآن مجید کی ناموس کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا جزلاینفک ہے۔ اس گھناؤنے عمل سے اسلامی دنیا میں شدید ردعمل کا آنا فطری امر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سوقیانہ عمل سے پوری مسلم دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا نے سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس شرمناک، افسوسناک اور ناقابل قبول سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس افسوسناک اور جہالت آمیز واقعے کا مرکزی کردار ڈینش اینڈ سویڈش انتہا پسند سیاستدان اور انتہا پسند سوشل ایکٹوسٹ راسموس پالوڈان ہے۔ ملعون پالوڈان اس سے پہلے بھی متعدد تقاریب میں قرآن کریم کی توہین کر چکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈینمارک اور سویڈن میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ پالوڈن ایک قوم پرست رہنما اور ڈینمارک اور سویڈن میں غیر ملکی تارکین وطن کے قیام کا شدید مخالف ہے۔

شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد ملعون پالوڈان نے مسلمانوں کے جس نفرت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے ردعمل میں اشتعال کی ایسی آگ بھڑک سکتی ہے، جو پورے یورپ کے امن کو خاکستر کر دے گی اور اگر اس دہشتگردی کا تدارک نہ کیا گیا تو پوری دنیا کا امن بھی غارت ہو سکتا ہے۔ اس بدترین سانحہ پر ردعمل دیتے ہوئے سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا بنیادی حصہ ہے، لیکن جو قانونی ہے ضروری نہیں کہ وہ مناسب بھی ہو۔

سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے ٹویٹر پر لکھا کہ سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کی حکومت یا میں مظاہرے میں اظہار خیال کی حمایت کریں۔ مغربی ممالک اس طرح کے اسلام مخالف اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے آزادی اظہار کے تصور کا سہارا لیتے ہیں، جب کہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر آزادی اظہار کسی بھی طرح دوسرے مذاہب اور قومیتوں کے عقائد کو مجروح نہیں کرتی۔ آزادی اظہار پر مغرب کی دوہرے معیار کی پالیسی یہ ہے کہ گویا آزادی صرف اپنے شہریوں کے لیے ہے۔ مغرب نے مقدسات کی توہین میں دوہرے معیار کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

مغرب ہولوکاسٹ کے گرد تو تنقید کو روکتا ہے، لیکن اسلام کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ آزادی اظہار پر مغرب کے دوہرے معیار کی تاریخ بتاتی ہےکہ مغرب میں آزادی اظہار کو صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مغربی دنیا اپنے دعوؤں کے مطابق اگر دنیا میں امن چاہتی ہے تو انہیں مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کی رعایت رکھنا ہوگی اور مقدسات کی توہین کے سلسلے کو روکنا ہوگا۔ آزادی اظہار کے نام پر اشتعال انگیزی کو تحفظ دینے کا مطلب آگ سے کھیلنا اور دنیا کو جنگ کی دعوت دینا ہے، جو پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔

قرآن مجید مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے، اس کی توہین کرنا ناقابلِ قبول عمل ہے۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی اور نذر آتش کرنے کے گھناؤنے فعل سے دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے احساسات و جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو بھی مقدس مذہبی کتابوں کی بےحرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس قسم کے بہیمانہ واقعات دنیا کے امن کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

یہ واقعہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا ایک انتہائی سنگین واقعہ ہے۔ انتہا پسندوں کی طرف سے بار بار کی جانے والی اس قسم کی اشتعال انگیز کاروائیوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا، ان کی مقدس اقدار کی توہین کی اور اسلامو فوبیا، نفرت اور عدم رواداری کی خطرناک مثال قائم کی ہے۔ اسلامو فوبیا کا کوئی بھی عمل اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ قرآن مجید کی بےحرمتی انتہائی گھناؤنا اور ناقابل برداشت عمل ہے۔

قرآن مجید جلانے کا واقعہ اس حقیقت کی ایک مثال ہے کہ یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ تمام مہذب دنیا کو اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسلام فوبیا صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اسلام دشمن فکر مغرب میں صرف عام لوگوں میں ہی نہیں، بلکہ مغربی ممالک کے ریاستی ادارے بھی اس ذہنیت کا برملا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔

پوری دنیا میں آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے۔ اسلام دشمنی کے پے در پے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ مغرب میں آزادی اظہار رائے کا مطلب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اجتماعی طور پر اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کی توہین و تحقیر، اسلامی تعلیمات کا تمسخر اور مسلمانوں کی تذلیل ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مذموم حرکات کسی ایک فرد کا ذاتی عمل یا کوشش کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایسی ناپاک جسارتیں پورے مغربی معاشرے کی اجتماعی سوچ کا مظہر ہیں جو تہذیبوں کے ٹکراؤ اور ایک نئی صلیبی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔

مغربی معاشرہ مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ضمن میں امت مسلمہ کی حساسیت کو مغرب اور اسلام کے مابین تعلقات کے حوالے سے باقاعدہ ایشو بننا چاہیے اور مغرب کو عالم اسلام کا مؤقف سننے، اس پر غور کرنے اور اس کو وزن دینے پر حتی الوسع مجبور کرنا چاہیے۔

اسلام مخالف انتہا پسندوں کے اس سلسلے کا تسلسل مسلمانوں کی کمزوری کا نتیجہ ہے، جو ایسے واقعات کی صورت میں ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور اسلامی اقدار کی بےحرمتی کے لیے ایسے وحشیانہ اقدامات کا تسلسل جاری ہے۔ الحادی قوتوں کی جانب سے ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت شعائر اسلامی کی توہین کی جاتی ہے اور حضرت نبیٔ آخرالزمان ﷺ کی شان میں گستاخی کا بھی دانستاً ارتکاب کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں بڑھتے اسلامو فوبیا پر تشویش کا اظہار اور اسے عالمی امن و سلامتی کیخلاف سازش قرار دیا گیا۔ اب سویڈن کے انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن پاک کی بےحرمتی کر کے پھر مسلم دنیا کو مشتعل کیا گیا ہے جس پر مسلم دنیا کو باہم متحد ہو کر الحادی قوتوں کیخلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔

اس معاملہ پر اگرچہ مسلم ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ ردعمل ناکافی ہے۔ اسلامی دنیا کو اس معاملے میں مستقل اور سخت لائحہ عمل اپنانا چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی شرپسند توہین مذہب کا ارتکاب کر کے عالمی امن کو خطرے میں نہ ڈال سکے۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مؤثر کردار ادا کیا جائے تو مسلم دنیا کا احتجاج اثر پذیر ہو سکتا ہے، ورنہ اسلام دشمن قوتیں ایسی حرکات سے باز نہیں آئیں گی۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib