Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Maut Aik Atal Haqeeqat Hai

Maut Aik Atal Haqeeqat Hai

موت ایک اٹل حقیقت ہے

یہ 2023ء ہے۔ آج سے سو سال پہلے 1923ء میں ہم میں سے کتنے لوگ دنیا میں موجود تھے۔ کتنے لوگوں نے 1923ء کے حالات کا سامنا کیا اور آج 2023ء کی جدید دنیا سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں؟ ایسا یقیناً کوئی بھی نہیں ہوگا۔

اچھا یہ بتائیے کہ کیا ہم میں سے کوئی انسان یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ 2123ء میں بھی زندہ رہے گا، 2123ء کی عقل کو دنگ کردینے والی ترقی کو دیکھ کر بھی حیران و ششدر ہورہا ہوگا؟ ایسا دعویٰ بھی کوئی نہیں کرسکتا، کیونکہ یقین ہے ہم میں سے کوئی بھی 2123ء میں زندہ نہیں ہوگا۔ ہر انسان جانتا ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جو کسی بھی لمحے دبوچ سکتی ہے۔ کوئی بھی انسان موت سے بچ نہیں سکتا۔ یہ زندگی اتنی سی ہی ہے اور اس میں بھی کل کی کچھ خبر نہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی ایک تہائی زندگی گزار چکے ہیں۔ بہت سے لوگ آدھی اور بہت سے دو تہائی زندگی گزار چکے ہیں، لیکن جانتا کوئی بھی نہیں بقیہ زندگی کتنی بچی ہے۔ آدھی زندگی ہے، ایک سال ہے، ایک ہفتہ یا ایک دن بچا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے واقعات و سانحات پل بھر میں رونما ہوتے دیکھے ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے صحت مند تندرست و توانا نوجوانوں کو موت کی آغوش میں سوتے دیکھا، جن کے بارے میں گمان تھا کہ انہوں نے ابھی برسوں جینا ہے۔ کتنے بچے، بوڑھے، عزیز و اقارب، دوست و احباب اچانک چلے گئے۔ کئی تو شاید یاد بھی نہ رہے ہوں۔

بعد والے کہتے ہیں ابھی کل ہی تو ہم گھنٹوں گپ شپ لگاتے رہے۔ صبح ہی تو اس سے حال احوال پوچھا تھا۔ شام ہی تو ہم نے فلاں جگہ جانے کا پلان بنایا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی تو ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ یقین ہی نہیں آتا کوئی ایسے بھی چلا جاتا ہے۔ ارے بھئی ازل سے ایسے ہی تو ہورہا ہے۔ موت کسی کا انتظار کرتی ہی کب ہے؟ جب معین وقت آتا ہے تو ہمیں جانا ہی ہوتا ہے، لیکن ہم ایک لمحہ پہلے تک بھی اس وقت مقرر سے لاعلم ہوتے ہیں۔

جب زندگی کی حقیقت ہی موت ہے تو پھر ہم لوگ زندگی بے ڈھنگے طریقے سے کیوں گزارتے ہیں؟ یہ جانتے بوجھتے کہ ہم کسی بھی وقت دنیا کو خیر باد کہہ سکتے ہیں، ہم زندگی ایسے کیوں گزارتے ہیں کہ شاید ہم نے کبھی مرنا ہی نہیں۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ 2123ء میں شاید ہم کسی کو یاد بھی نہ ہوں، شاید ہماری قبروں کا علم بھی کسی کو نہ ہو اور اس کے ساتھ ہم سے دنیا میں کیے ہر عمل کا حساب لیا جائے گا۔ مرنا تو ہے، لیکن اصل خوف مرنے کے بعد کی منازل کا ہے، لیکن پھر بھی ہم لوگ اپنی کچھ عرصے کے موہوم سی زندگی کی خاطر ہر طرح کی برائی کیوں کرتے ہیں؟

ہم لوگ نفرتوں، عداوتوں، اناؤں کے سمندر میں کیوں ڈوب جاتے ہیں؟ صرف دوسروں کو دکھانے اور اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے دولت کمانے کے غلط ذرائع کیوں استعمال کرتے ہیں؟ دوسروں کا حق کیوں مارتے ہیں؟ دوسروں کو نقصان کیوں پہنچاتے ہیں؟ تھوڑا سا اختیار، اقتدار اور دولت ملنے پر خود کو زمینی خدا کیوں سمجھنے لگتے ہیں؟ اپنے لیے سب کچھ جائز کیوں کرلیتے ہیں؟

وہ مفاد پرست لیڈر جو آج ہیں، کل نہیں ہوں گے، ان کے لیے ایک دوسرے سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ ہم لوگ جب کوئی غلط کام کرتے ہیں تو موت کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ ہمیں علم ہے کہ ہم نے مرنا ہے لیکن کیا پھر بھی ہم لوگ موت پر یقین نہیں رکھتے؟

Check Also

Parh Parh Kitaban Ilm Diyan Tu Naam Rakh Liya Qazi

By Rehmat Aziz Khan