Ye Ummat Riwayat Mein Kho Gayi
یہ اُمّت رِوایات میں کھو گئی
یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ اُمّت مُسلِمہ کا ماضی بہت ہی تابناک اور روشن تھا۔ جب ہم تواریخ کے اوراق پھیرتے ہیں تو یہ حقیقت بالکل عیاں ہوتی ہے کہ قرون وسطٰی میں اُمت مُسلمہ کو کمال کا عروج حاصل تھا اور دنیا کے دو تہائی حصہ پر مسلم حکومت قائم تھی۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ادب، سائنس، طب، فلسفہ جیسے دنیوی علوم پر بھی کمال کی دسترس تھی اور اس دور میں مسلمانوں نے علمی تحقیق سے اِن سارے علوم کو عروج پہنچایا۔
لیکن پھر مسلمانوں میں آہستہ آہستہ فِکری سرگرمیاں ختم ہو گئیں اور مسلمان رسومات، بِدعات، توہمات اور خرافات میں پھنس کر عِلمی دنیا سے دور ہو گئے اور ان کا زوال شروع ہو گیا۔ قرونِ وسطٰی سے لیکر دور حاضر تک مسلمان اِن ہی بے سود اور بے فائدہ سرگرمیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور پسماندگی و خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بقول اقبالؒ۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا۔
اُمّت مُسلمہ کی خستہ حالی اور پسماندگی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کی اصل رُوح کو بُھلا کر خرافات میں کھو گئے ہیں۔ ہم نے عبادات کے بنیادی مغز و مفہوم کو سمجھنے کے بجائے بِدعات اور لا معنٰی چیزوں کو فروغ دیا ہے اور بے سود افعال کا رواج عام کیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ساقی نامہ میں اُمت مُسلمہ کی اس حالت زار کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی۔
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر یہ خبر عام ہو گئی تھی کہ بانڈی پورہ کے کسی نوجوان نے پانچ سو میٹر لمبے کاغذ کے پلندہ پر قرآن پاک تحریر کر کے تواریخی ریکارڈ میں اپنا نام درج کروایا ہے۔ لیکن میرا ذہن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اس عمل سے اُمت مُسلمہ کو کس طرح کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور شریعت کی حدود میں یہ کام کہاں تک جائز ہے؟
یہاں پر ذہن میں ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیا قرآن پاک اسی لئے نازل ہوا ہے کہ ہم اِسکی خطاطی کر کے دیواروں پر سجائیں، قول و قسم کھانے کیلئے اس کو عدالتوں اور ایوانوں کی زینت بنائیں، اس کو تعویذات کی شکل دیکر کلائیوں میں باندھیں اور گلے میں پہنائیں یا پھر کاغذ اور کپڑے کی لمبی لمبی چادروں پر لکھ کر اسکی نمائش کریں؟ جی نہیں، ایسا کر کے ہم قرآن پاک کے تقّدس و احترام کو پامال کر رہے ہیں اور اس کا حق ادا کرنے سے محروم ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس قرآن مجید ایک نُسخہ کِیمیاء ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے۔ یہ الہامی کتاب اس لئے نازل ہوئی ہے تاکہ انسان قرآن مجید کی آیات پاک کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنا کر صِراط مستقیم ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کر سکے۔ جیسا کہ اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
"رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں" (القرآن، 2: 185)۔
اب اسی طرح کی ایک دوسری مثال لیجئے۔ آج کل سوشل میڈیا پر اکثر ایک اور خبر دیکھنے کو ملتی ہے کہ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرلا سے کوئی نوجوان پیدل چل کر ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر سے زائد کی مسافت کو طے کر کے مکہ مکرمہ پہنچ کر حج بیت اللّٰہ کا فریضہ ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ اب خدارا کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ عمل کہاں تک جائز اور صحیح ہے؟
ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ حج کا فریضہ صرف ان لوگوں پر واجب ہے جو جسمانی اور معاشی طور پر اس عمل کو ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ زندگی اللّٰہ پاک کی ایک قیمتی اور بیش بہا امانت ہے لہٰذا جان بوجھ کر اور بلاوجہ خود کو تکلیف پہنچانے اور وقت ضائع کرنے سے اللّٰہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی ہے۔ چونکہ آج کل کے دور میں پیدل چل کر حج کرنا انسانی عقل کے منافی ہے کیونکہ اس عمل میں بلاوجہ بہت ساری تکالیف کا سامنا ہونا اور بہت سارے قیمتی وقت کا صَرف ہونا ناگزیر اور یقینی ہے۔
جو وقت اور توانائی اس فعل کیلئے درکار ہے وہ وقت اور توانائی انسان خود اور دین کی فلاح کیلئے استعمال کر سکتا ہے اور کسی ایسے کام میں صَرف کر سکتا ہے جو اُمت مُسلمہ کو پستی سے نکال کر بلندی کا مقام حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے اور ساتھ ہی انسان اتنے پیسے کما سکے کہ بعد میں آسانی سے حج کے فریضہ کو انجام دے سکے۔
اسلام میں تمام بنیادی ارکان کو پورا کرنے کیلئے پہلے ہی مخصوص اور منفرد طریقے طے کئے گئے ہیں اور اپنی مرضی سے کوئی بھی دوسرا طریقہ کار عمل میں لانے کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ مگر اس کے برعکس کیرلا کے نوجوان کا یہ طریقہ رکنِ اسلام کو پورا کرنے کے طریقۂ کار کو ہندومت کے طریقۂ کار سے مشابہت دیتا ہے جہاں ہندومت کے سنیاسی ساری دنیا کے معاملات کو چھوڑ کر ننگے پاؤں پیدل پہاڑوں پر چڑھ کر اپنے دیوی دیوتاؤں کے مندروں کی زیارت کرتے ہیں۔
لیکن دینِ اسلام اس کے برخلاف دینی اور دنیوی معاملات میں اعتدال رکھنے کی ہدایت دیتا ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنے سے ممانعت کرتا ہے۔ خیر یہ تو صرف دو مثالیں تھیں مگر آج کل اکثر مسلم معاشروں میں ایسی ہی بہت ساری مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو مسلمانوں کے فضول، بے سود اور خرافاتی افعال کی عکاسی کرتے ہیں۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ تمام مسلمان خرافات، بدعات اور بے سود افعال کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی پیروی کر کے اسلام کے حقیقی اور اصل پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ ایک اللّٰہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی ﷺ کی سنت۔
لہٰذا اُمت مُسلمہ کو چاہئے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کر کے عبادات کے مغز و مفہوم کو سمجھ کر اپنے معاملات درست کرنے کی کوشش کریں۔ ہر مسلم فرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسے افعال و اعمال میں وقت صَرف کرے جو اُمت مُسلمہ کو پست حالی سے نکال کر پھر سے ایک بلند مقام عطا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کیلئے ذہن کی نعمت سے نوازا ہے اور استدلال و غور و فکر کرنے کی صلاحیت بخشی ہے۔ جب تک مسلمان استدلال سے کام لے کر غور و فکر کر کے اپنے دینِ اسلام کے اصل روپ، عبادات کے حقیقی مفہوم و مقاصد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک اُمت مُسلمہ اپنے ماضی کی روشن تواریخ کو دہرانے میں کامیاب نہیں ہو گی اور شائد تب تک بلندی کا وہ کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا اُن کیلئے ایک خواب رہے گا۔