Wajood e Ilahi Aur Deen Ka Tassawar (1)
وجودِ الہٰی اور دین کاتصور (1)
دورِ حاضر میں کچھ مسلمان (خاص طور پر مسلمان نوجوان) خدا، مذہب، روح جیسے تصورات کے بارے میں متشکّک ہیں۔ یعنی ایسے حضرات ان تصورات کو مشکوک سمجھ کر کبھی کبھار اِن اصطلاحات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے لوگ جدید مغربی مُلحدانہ فلسفہ سے متاثر ہو کر مشہور ماہر نفسیات سِگمنڈ فرائیڈ کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا اور مذہب جیسے تصوّرات انسانی ذہن کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کی جڑ یا بنیادی وجہ مذہب ہے۔ یعنی مذہب دنیا میں افلاس، بدبختی وغیرہ کا ماخذ ہے۔ اگر دنیا میں مذہب کا تصوّر نہیں ہوتا تو شاید ان چیزوں کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ سائنسی اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کے اس عقیدے سے بےحد متاثر ہے کہ مذہب حکمران طبقہ کی ایجاد ہے تاکہ وہ مزدور اور کمزور طبقہ کو مذہبی عقائد کے تلے دبا کر ان پر اپنی حکومت اور اپنا غلبہ برقرار رکھ سکے۔
اب یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کچھ مسلمانوں خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے اندر پنپتے اس مُلحدانہ رویہ کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ کیا اس کے ذمہ دار ہمارے روایتی مبلغین اور واعظین حضرات ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاشرے کے اعلٰی طبقے کے زیر اثر اسلام کے حقیقی پیغام اور حقیقی تعلیمات کو چھپا کر لوگوں کے سامنے جعلی اور بناوٹی اسلام پیش کرتے ہیں اور سائنس کو اسلام کا متضاد سمجھتے ہیں۔
یا اس رویہ کے ذمہ دار مسلمانوں کا وہ دانشور طبقہ ہے جنہوں نے اپنے دین یعنی اسلام اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی اور موزونیت ڈھونڈ کر اسلام میں جدید مسائل کا حل تلاش نہ کرنے کے بجائے اپنے سائنسی جنون کو پائہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں اپنے دین کو بالائے طاق رکھ کر جمُودیت کا شکار بنا دیا اور اپنے لوگوں کے اندر اس مُلحدانہ رویے کو پنپنے کا موقع دیا۔
مضمون کے اس مرحلے پر اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ خدا اور مذہب کے خلاف بدظنی اور عناد کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ یہ نظریات دور جدید کے اولین مرحلے یعنی اٹھارویں صدی کے دورِ عقلیت یا روشن خیالی کے دور میں نمودار ہوئے جس کی پشت پناہی اور حمایت میں سولہویں صدی کا سائنسی انقلاب تھا۔ کیونکہ مختلف کتب میں اس بات کے واضع ثبوت موجود ہیں کہ دورِ ماضی میں سقراط اور افلاطون جیسے کئی عظیم فلسفی الوہیت اور عظیم غیبی طاقتوں پر یقین رکھتے تھے۔
سائنسی انقلاب کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں نے جدید فکری سوچ کی بنیادوں پر مذہبی عقائد پر سوالات کرنا شروع کئے اور بالآخر یورپ کے ریفارمیشن دور یعنی تحریک اصلاح کلیسا میں لوگوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا۔ لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں اس نفرت کی بنیادی وجہ کلیسا کی بلاجواز ظلم و زیادتی تھی جس نے عام لوگوں اور دانشوروں کو پادریوں کے اقتدار اور حکمرانی کو چیلنج کرنے پر مجبور کر دیا۔
پوپ کے اقتدار میں تخلیقی سوچ پر مکمل پابندی تھی اور کسی بھی قسم کے اختلاف کی بالکل بھی گنجائش نہیں تھی اور اختلاف کے عوض سخت نتیجہ بھگتنا پڑتا تھا۔ ان ہی بنیادوں پر اٹلی کے مشہور فلسفی اور ریاضی دان "گیوردانو برونو" کو 17 فروری 1600ء کے دن زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ اُس نے کلیسا کے رائج کردہ سخت عقائد کو چلینج کیا تھا۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلیسا کے اس ظالمانہ برتاؤ اور رویہ سے لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں پنپتی مایوسی اور نفرت کو جوازیت حاصل تھی۔
لیکن یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اگر ایک کشتی ہمیں ساحل تک پہنچانے میں ناکام ہو رہی ہے تو ہمیں ساحل تک پہنچنے کیلئے کشتی سے دریا میں چھلانگ مارنے کے بجائے عقلمندی کا ثبوت دے کر کشتی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر کے مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ اگر اس اصول کو اپنا لیا جائے کہ ہر اُس چیز کو ترک کر دینا چاہئے جو امن اور اچھائی کی فراہمی یا برائی سے نجات دلانے میں ناکام رہی ہو تو سب سے پہلے سائنس کو ترک کر دینا ضروری ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو سائنس کی وجہ سے دنیا کا امن بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ظالم برطانوی سلطنت نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی تقریباً آدھی دنیا کو اپنی نو آبادیات بنا کر وہاں کے مقامی باشندوں پر اپنے ظلم و ستم ڈھائے۔ امریکہ نے اپنے جوہری حملوں سے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا۔ علاوہ ازیں افغانستان اور عراق میں ڈرون حملے کے ذریعے امریکہ کے وحشیانہ طرز عمل اور بربریت کے مظاہرے میں جدید سائنس کا ایک اہم رول تھا۔
کیا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں سائنس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ یہاں پر کچھ لوگوں کا جواب ہوگا کہ سائنس نے تو بنی نوع انسان کو بہت ساری سہولیات بھی فراہم کی ہیں اور کسی بھی چیز کا غلط استعمال کر کے اس کو نقصان دہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں، آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں اور اسی نقطے میں سارا فلسفہ چھپا ہے۔ چیزوں کے استعمال کا طریقہ ان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ہم یہی اصول سائنس کی طرح مذہب میں بھی اپنا سکتے ہیں۔ جی ہاں، سائنس کی طرح مذہب کا بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اصلی دین کو چھپا کر لوگوں کے سامنے بناوٹی دین پیش کر رہے ہیں تو اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کو ترک کرنے کے بجائے علمی تحقیق کر کے لوگوں کے سامنے حقیقی دین کو پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس نقطۂ نظر پر ہم سب کو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ کے ایک دانشور تھامس وی مورس (Thomas V Morris) نے ایک اہم کتاب (God and the Philosophers: The Reconciliation of Faith and Reason) کی ترتیب دی ہے جو اصل میں بہت سارے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مختلف عیسائی فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے ملحدانہ نظریہ سے مذہبی نظریہ تک کا سفر قلمبند کر کے یہ بات واضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے کس طرح علمی تحقیق سے مذہب، عقل اور سوچ کو آپس میں ہم آہنگ پایا۔
اب اگر ہم مسلمانوں کی بات کریں تو ان کے نزدیک ایمان اور عقل کی آپسی ہم آہنگی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ مسلم نشاۃ ثانیہ کے دور میں اکثر مسلم دانشور اس بات پر پریقین تھے کہ ایمان اور عقل کا آپس میں ایک اہم میل جول اور مطابقت ہے اور یہی نقطۂ نظر اسلامی تہذیب کی بنیاد بنی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعد میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر اسلامی تہذیب کا زوال آیا تو مسلمانوں کی سائنس میں دلچسپی ختم ہوگئی اور انھوں نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا۔ اب مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ سائنس کو قرآن کے خلاف سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ (جس میں نوجوانان کی تعداد زیادہ ہے) سائنس پر سخت یقین رکھتا ہے لیکن اسلام اور خدا کے بارے میں مشکوک ہے۔ (جاری)
نوٹ: مضمون کا باقی حصہ اگلے ہفتے قارئین کرام کیلئے پیش کیا جائے گا۔ انشاءاللہ