Khwahishat Ki Ghulami
خواہشات کی غلامی
کرّہ اَرض پر تمام زندہ مخلوق کو بقیدِ حیات رہنے کیلئے کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ ہوا، پانی، غدا وغیرہ کچھ ایسی بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر زندہ مخلوق کا وجود مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہ کچھ ایسی بنیادی ضروریات ہیں جو ان کے وجود کیلئے شرطِ لازم ہیں۔ جب تک ایک زندہ مخلوق کو یہ بنیادی ضروریات فراہم ہوتی ہیں اس کا وجود قائم رہتا ہے۔
لیکن جونہی یہ ضروریات لاحاصل ہو جاتی ہیں تو اُس کا وجود بھی ڈگمگانے لگتا ہے اور بالآخر اِن ضروریات کی غیر دستیابی میں اس کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اپنی بنیادی ضروریات کو حاصل کرنے کیلئے اور اپنے وجود کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ایک زندہ مخلوق کو کبھی کبھار سخت مشکلات کا سامنا کر کے بہت زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس کے گرد و نواح کے حالات ہمیشہ اس کے موافق نہیں رہتے ہیں۔
بنی نوع انسان کو اگرچہ تمام مخلوقات میں سے بہترین مخلوق کا شرف حاصل ہے مگر وہ بھی کائنات کے ان بنیادی اصولوں کے پابند ہیں۔ زندہ رہنے کیلئے اُن کی بھی کچھ بنیادی ضروریات ہیں اور باقی مخلوقات کی طرح انہیں بھی اپنا وجود قائم رکھنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہیں۔ کوئی بھی انسان قوانینِ کائنات کے خلاف جا کر غیر متحرک صورت یا حالتِ جمود میں اپنی بقا کو قائم نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس کے بجائے ہر فرد کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنی آخری سانس تک تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کو بھی بدلنا پڑتا ہے اور جینے کے نئے نئے طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ لیکن باقی مخلوقات کے مقابلے میں انسان کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ انسان اپنے آپ کو صرف بنیادی ضروریات حاصل کرنے تک محدود نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کی مادی لالچ اور نفسانی خواہشات اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے پر اُکساتے ہیں۔ انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی لالچ میں ایک ایسی دوڑ کے پیچھے لگ جاتا ہے جس میں تخلیقِ آدم سے لیکر آج تک کسی بھی فرد نے کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ انسان بے شمار خواہشات کا مرکب ہے۔ ہر انسان کے اندر امیری، کامیابی، خوشی، طاقت، دولت، شہرت وغیرہ جیسی ان گنت خواہشات کا انبار پڑا ہوتا ہے۔ اگر ان بے شمار خواہشات میں سے جائز خواہشات کو جائز طریقے سے حاصل کیا جائے تو انسان کی زندگی سنور جاتی ہے اور ایک انسان اعلیٰ مقام کا حقدار بنتا ہے۔
لیکن جب ایک انسان مادی لالچ کے فریب میں آ کر اپنی تمام جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کیلئے تمام حدود تجاوز کر کے اچھے اور برے میں تمیز کرنا بھول جاتا ہے تو یقیناً وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔ جب ہماری خواہشات ہمارے عقلی اور فِکری حدود کو پار کرتی ہیں تو ہم اشرف المخلوقات کے مقام سے گر کر حیوانی صفات کے مالک بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔
"اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ " (القرآن 28:50)
انسان کی خواہشات اس کے دورِ طفلی سے شروع ہو جاتی ہیں اور زندگی کے دورِ آخر تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔ البتہ مختلف اوقات میں زندگی کے بدلتے نظریہ کے مطابق اس کی یہ خواہشات زندگی کے مختلف ادوار میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر کے بدلتی رہتی ہیں۔ چونکہ مادی حرص و ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی لہٰذا ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی خواہشات بڑھتی رہتی ہیں۔
انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہو تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے" (جامع ترمذی، باب 36، حدیث 34)۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اس کی ایک خواہش پوری ہو جاتی ہے تو وہ دوسری خواہش کو پورا کرنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ اس کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔
اپنی تمام خواہشات کو پورا کرنے کی بے انتہا لالچ میں بالآخر انسان اپنی ہی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ جیسا کہ امام غزالی کا مشہور قول ہے کہ خواہشیں بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہیں مگر صبر غلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔ تمام عمر اپنی خواہشات کے بوجھ تلے دبے رہنے کے باوجود بھی انسان اپنی ساری خواہشات کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ خواہشات کو پورا کرنے کی بے انتہا اور غیر محدود لالچ انسان کے اندر بے چینی، اضطرابی مایوسی، الجھاؤ، افراتفری اور پریشانی جیسے منفی اثرات کو جنم دیتی ہے۔
یہی منفی محرکات پھر انسان کے اندر اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو ختم کر کے اُس کیلئے اللہ کی نافرمانی کے اسباب بن جاتے ہیں۔ اپنی خوشی اور کامیابی کی تلاش میں انسان تمام عمر اپنی خواہشات کا پیچھا کرتا رہتا ہے مگر وہ اس تلاش میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا ہے اور بالآخر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ تشنگی میں پانی کیلئے ایک سراب کا پیچھا کر رہا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور محض ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ بقول غالب۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ہماری لامحدود خواہشات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم زندگی میں روحانیت کے جوہر کو کھو بیٹھے ہیں اور ہمارے دل مادی لالچ سے بھرے پڑے ہیں۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر مطمئن ہونے کے بجائے ہم زیادہ سے زیادہ مادی دولت کے خواہاں ہیں جو ہمارے دکھ، پریشانی اور عدم اطمینان کا بنیادی سبب ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی جدوجہد میں اپنی تخلیق کا اصلی مقصد بھول جاتے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیاوی زندگی عارضی ہے اور اصل و ابدی زندگی تو اُخروی زندگی ہے۔ دنیا کی مادی لالچ اور فریبانہ خوبصورتی دیکھ کر ہم قرآن پاک کی اُس آیت کو بھول جاتے ہیں جس میں اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں کہ ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سودا ہے (القرآن 3:185)۔ لہٰذا ایک پرامن اور خوشحال زندگی کیلئے اپنی بنیادی ضروریات کو ترجیح دینا، اپنی خواہشات کو محدود رکھنا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر مطمئن ہونا لازمی ہے۔
ہمیں زندگی میں مثبت رویہ اختیار کر کے اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہر حال میں صبر، اطمینان اور فراخدلی کا مظاہرہ کر کے بہترین زندگی گزارنے کا نمونہ پیش کریں۔ صبر، اطمینان اور فراخدلی ایسے رویے ہیں جو ہمارے اندر مادی لالچ کم کر کے ہماری زندگی کو پرسکون اور پر مسرت بناتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہر وقت سماجی خدمات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیکر سماجی رشتوں کی قدر کریں۔ ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر کے مادیت کے بجائے روحانیت اور جمالیات میں حقیقی خوشی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا اصول و قواعد کو اپنا کر انسان اپنی خواہشات کو محدود رکھ کے ایک پرامن، پرسکون اور خوشحال زندگی گزار سکتا ہے۔