Baba Mujhe Maaf Karo
بابا مجھے معاف کرو
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عُمیر کا باپ بہت بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا۔ اب اُس کے جسم میں وہ جان باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اُونچا سنتا تھا اور اُس کی نظر بھی اب کمزور ہو چکی تھی۔ اپنی زندگی کے ایامِ جوانی اُس نے محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کو پالنے میں صرَف کئے تھے۔ شاید جوانی میں عُمیر کے باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے طریقے سے پالنے اور اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرنے میں کبھی کبھار خُدا کی نافرمانی اور تھوڑی سی بے ایمانی بھی کی ہوگی اور آج بڑھاپے میں اب وہ بستر پر پڑا زندگی کے ایامِ آخر گزار رہا تھا۔ لیکن عُمیر کا باپ اِس بات سے مطمئن تھا کہ اُس نے محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کو اونچی تعلیم دلائی ہے اور اُس کی شادی کروا کے اس کا گھر آباد کیا ہے۔
اگرچہ عمیر بھی اپنے باپ کے بڑھاپے میں اُس کی اچھی خاصی خدمت کرتا تھا اور اُس کی ضروریات کا دھیان رکھتا تھا۔ لیکن وہ زیادہ تر اپنے دفتری کام کے ساتھ ہی مشغول رہتا تھا اور اس وجہ سے اس کو اپنے باپ کے ساتھ بہت ہی کم وقت گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ عُمیر کے بچے بھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے گھر سے باہر شہر میں رہتے تھے۔ لہذا عُمیر نے اپنے باپ کے کمرے میں ایک بڑے سائز کا ٹی وی رکھا تھا تاکہ اس کا باپ تنہائی میں ٹی وی دیکھ کر اپنا وقت گزارا کرے اور کسی قسم کی بوریت محسوس نہ کرے۔
ایک دفعہ اپنے دفتری کام سے مشکل سے وقت نکال کر عُمیر اپنے باپ کے کمرے میں بیٹھا اپنے باپ کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا جس پر مختلف قسم کے جانوروں کا رہن سہن دکھا رہے تھے۔ جیسے ہی عُمیر کے باپ کو اسکرین پر جنگل میں لنگوروں کی ایک ٹولی نظر آئی جو انسانوں کی طرح اپنے بچوں کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ کھیل رہے تھے وہ حیران ہوا اور عُمیر سے پوچھنے لگا۔۔ "بیٹا یہ بندرنما جانور کون ہیں اور کہاں ہوتے ہیں؟"
"یہ سرمئی لنگور ہے، یہ زیادہ تر کشمیر اور نیپال کے ہمالیائی جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔۔ عُمیر نے جواب دیا"۔
اس نے دوبارہ پوچھا۔۔ "کیا نام بولا آپ نے"
عُمیر نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔۔ "سرمئی لنگور"
چونکہ عُمیر کا باپ بڑھاپے کی وجہ سے تھوڑا اونچا سنتا تھا، سُنائی نہ دینے کی وجہ سے اس نے تیسری بار عُمیر سے پوچھا۔۔ "کیا بول رہے ہو؟"
ایک ہی بات تیسری بار پوچھنے پر عُمیر چِڑ گیا اور غصے میں آکر اپنے باپ سے سخت لہجے میں کہنے لگا۔۔ "سنائی نہیں دیتا ہے کیا؟ بڑھاپے میں اب آپ بہرے ہو گئے ہو۔۔ کتنی بار بولوں کہ ان کو سرمئی لنگور کہتے ہے"۔
عُمیر کے اس غیر متوقع رویے سے اُس کے باپ کو شدید صدمہ ہوا۔ اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ اس کا بیٹا اس لہجے میں اُس کے ساتھ پیش آسکتا ہے لہذا اِس سخت لہجے کو برداشت نہ کرتے ہوئے اُس کو دل کا دورہ پڑا۔ علاج معالجے کیلئے اس کو جلدی سے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے اس کا آپریشن کیا اور چند دنوں میں عُمیر کے باپ کی طبیعت ٹھیک ہوگئی اور اُس کو واپس گھر لایا گیا۔ گھر لا کر عُمیر اپنے باپ کی تیمارداری میں مصروف ہوگیا اور اُس کو اپنے کئے پر تھوڑا پچھتاوا بھی تھا۔ ایک دفعہ عُمیر اپنے باپ کی الماری میں کچھ دوائی ڈھونڈ رہا تھا تو دوائی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُس کی نظر ایک ڈائری پر پڑی۔ ڈائری ہاتھ میں لیتے ہوئے جب عُمیر نے اِس کے چند ورق پلٹے تو اُس کی نظر اِن سطُور پر پڑی۔۔
"آج میں اور میرا ننھا بیٹا تفریح کیلئے جنگل کی طرف نکلے۔ وہاں پہنچ کر میرے لاڈلے نے درخت کی ایک ٹہنی پر ایک بندر دیکھا۔ میرا ننھا بیٹا بندر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ بابا یہ کیا ہے۔ جب میں نے جواب میں بولا کہ یہ بندر ہے تو میرے بیٹا نام سن کر بہت خوش ہوا۔ میرے بیٹے نے بیس پچیس بار مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو میں ہر بار اس کے ماتھے اور گالوں کو چوم کر اس کو جواب دیتا تھا کہ یہ بندر ہے۔ مجھے اس کے سوال پوچھنے پر انتہائی خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ میرے بیٹے میں سوچنے، سمجھنے اور پوچھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے۔۔ "
دراصل عمیر کے باپ کو اپنے بیٹے سے بےحد شفقت اور لگاؤ تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گزارے ہر دن کی یادیں اپنی ڈائری میں قید کرتا تھا اور آج دوائی ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہی ڈائری عُمیر کو اپنے باپ کی الماری سے ملی۔ ڈائری سے یہ سطور پڑھ کر عُمیر کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔ وہ سوچنے لگا کہ جس باپ نے بچپن میں اُس کو اتنے لاڈ پیار سے پالا ہے آج اُسی باپ کی بات برداشت نہ کرتے ہوئے اُس نے اپنے باپ کے ساتھ اتنا برا برتاؤ کیا ہے۔ وہ اپنے کئے پر اتنا نادم تھا کہ وہ اپنے باپ سے معافی مانگنے کی ہمت بھی نہیں جٹا رہا تھا۔ عُمیر روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آیا اور اُس کو گلے لگا کر روتے ہوئے کہنے لگا۔۔ "بابا مجھے معاف کرو۔۔ بابا مجھے معاف کرو، میں نے غصے میں آکر آپ سے تلخ کلامی کرکے بہت بڑی غلطی کی۔۔ بابا مجھے معاف کرو"۔