Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Hashmi/
  4. Nasal Parasti, Zillat Ka Baais

Nasal Parasti, Zillat Ka Baais

نسل پرستی، ذلت کا باعث

ایک طرف تو کوروناکی عالمی وباء نے دُنیا کو منجمند کر کے رکھا دیا، اس کے ساتھ جڑے کئی مسائل نے سر اٹھا لیا، جن میں معاشی زبوں حالی، بے روزگاری جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، تو دوسری طرف امریکہ میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلآئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد سے احتجاج کا لامتناعی سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارت میں نسل پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردوں کے ماروائے 25 ہزار افراد کو ڈومیسائل کا اجراء کر دیا گیا، جو بدترین ظلم اور نسل پرستی کی انتہا ہے۔ جو مودی سرکار نے آنکھوں پر کھوپے چڑھائے نسل پرستی کی دوڑ میں جتے ہوئے اس گھوڑے کو تعصب کی لوریاں دے کر پالا ہے۔ اور اس کے کانوں میں نفرت کے آوازے مسلسل دیے جاتے ہیں تاکہ یہ کسی اور طرف نہ دیکھ سکے اور نہ کوئی اور بات سن پائے۔

تعصب، خصوصاً قوم پرستی کا تعصب ایسا گھوڑا ہے جو نفرت کے میدان میں سرپٹ بھاگتا ہے۔ اس پر بیٹھا ہوا سوار عموماً یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ اس کے قابو میں ہے، لیکن یہ بدمست گھوڑا ہے جو اپنے سوار کو ہی پاؤں تلے روندتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر ان رہنماؤں نے بھوت چڑھائے ہوتے ہیں۔

تہذیبِ حاضرہ نے بنی نوع انسان کو لا تعداد مسائل سے دو چار کر دیا ہے۔ اس نے جہاں دیگر باطل نظریات مسلط کر کے انسانی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہاں نسلی عصبیت کو بھی خوب فروغ دیا ہے۔ نسلی امتیاز تو پہلے بھی برتا جاتا تھا لیکن مغربی تہذیب نے اسے ایک تحریک کی شکل میں پیش کر کے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ اس کی زہر ناکی ہم گزشتہ صدی میں دو ہولناک عالمگیر جنگوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ ان جنگوں میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔ یہی وہ دور تھا۔ جس میں ایک مہذب قوم نے پہلی دفعہ ایٹم بم استعمال کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا اور پھر نہ جانے کتنی اقوام اس کی ہوس کا شکار بنیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپی اقوام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہوں نے بلا وجہ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ پھر وہی اقوام جو ایک دوسرے سے جنگ میں برسرِ پیکار تھیں ایک متحدہ باڈی ای ای سی کی شکل میں متحد ہوگئیں۔ انسانوں کے خود ساختہ نظریات کے نتائج بڑے تباہ کن ہوتے ہیں ان کے برعکس خالقِ کائنات کے پیش کردہ اصول عالمگیر ہوتے ہیں یہ ہر زمانے میں قابلِ عمل ہوتے ہیں۔

انسان خواہ مخواہ خود کو خالقِ کائنات کی جگہ لینا چاہتا ہے اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا ہے۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو انسان بار بار دہراتا ہے اور خمیازہ بھگتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اسی وقت امن اور سلامتی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ جب وہ خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بغیر ہدایت کے اس دنیا میں نہیں بھیجا۔ بلکہ ایسی ہمہ گیرہدایت سے نوازا ہے جو رہتی دنیا تک اس کی رہنمائی کرتی رہے گی بلکہ اس پر عمل کرنے والے آخرت میں بھی فلاح پائیں گے۔ اسلام نسل پرستی اور قوم پرستی کی بجائے وحدتِ انسانی کا حامی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کے تمام لوگ برابر ہیں۔

فرمان الٰہی ہے۔"لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبر دار ہے۔"( آیت 13 سورہ الحجرات) اس آیت سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ سارے انسانوں کے جدِ امجد ایک تھے لیکن بعد میں ان کی اولاد مختلف قوموں، قبیلوں اور نسلوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ اور یہ شناخت کے لیے ضروری بھی تھا۔ لیکن بحیثیت انسان سب انسان برابر ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں پرہیز گاروں کا مقام بلند ہے۔ گویا جو شخص اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں اس کے قوانین کی پابندی کرے گا۔ وہی افضل و اعلیٰ ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص فتنہ فساد اور ظلم و ستم برپا کرے گا۔ وہ سزا کا حق دار ہے۔ ذلت ومسکنت اس کا مقدر بنے گی۔ ہم غیر مسلموں کے بارے تو بات کرتے ہیں۔ لیکن خود مسلمانوں میں بڑے بڑے دیندار افراد بھی قومی اور نسلی عصبیتوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ فرقہ بندی ہے، کہیں ذاتیں ہیں، کیا زمانے میں پنپنے کی یہیں باتیں ہیں۔

معاشرہ میں حسب نسب پر فخر و تکبر بات بات پرچھلکتا اور ٹپکتا نظر آتا ہے بلکہ یہ رویہ ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا زوال و انحطاط ہے، اس ہولناک وباء کے ایام بھی ہمیں ایک قوم نہ بن سکے۔ ذلت و پستی کا باعث یہی وہ رویہ ہے، جو ہماری رگ رگ میں رچ بس گیا ہے۔ آج دنیا مسلمانوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی تدبیریں ہو رہی ہیں مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کا عفریت سر اٹھا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں ردِ عمل کا شکار ہوئے بغیر نہ صرف خود اسلام پر کاربند ہونا ہوگا بلکہ اسلامی تعلیمات کو بھی عام کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم اس نسخہء امن کے ذریعے دنیا کو امن سے ہمکنار کر سکیں۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے آخری خطبے حج الوداع میں آخری پیغام دیا تھا۔"کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت و امتیاز حاصل نہیں۔ سوائے تقویٰ کے۔"آج دنیا امن کو ترستی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے خطبے میں پوری انسانیت کو بتا دیا کہ رنگ نسل اور علاقائی عصبیت نوعِ انسانی کے لیے تباہ کن ہے آپؐ کا یہ پیغام پوری انسانیت کے لیے تھا۔ نسل آدم آج بھی اس حیات آفرین پیغام پر عمل کر کے اس کرہ ارض کو امن و سلامتی سے ہم کنار کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس آج بھی خالقِ کائنات کا بھیجا ہوا نسخہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اس کے محبوبِ رسولﷺ کے فرمودات موجود ہیں۔ دنیا ایسی تعلیمات کو ترستی ہے لیکن ہم ان تعلیمات کو عام نہیں کرتے۔ نہ ہم خود اس پر عمل کرتے ہیں نہ دوسروں کو بتاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی فلاح چاھتے ہیں تو نہ صرف ہمیں خود اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ بلکہ اسلامی تعلیمات سے پوری دُنیا کو بھی روشناس کرانا ہوگا۔ یہی واحد ذریعہ ہماری کامیابی کا ضامن ہے۔ دنیا اسی نظامِ کے سائے میں انسانی وحدت اختیار کرے گی۔ ورنہ ذلت ومسکنت رہے گی۔

Check Also

Gilgit Baltistan Mein Siyasi o Samaji Aloodgiyan

By Amirjan Haqqani