Nafrat Insan Se Hai, Jurm Se Nahi
نفرت انسان سے ہے، جرم سے نہیں
ایک اِنسان میں اَندھا پن اس وقت پیدا ہونے لگتا ہے جب اسے اپنی ہر چیز مکمل دکھائی دینے لگتی ہے۔ انسان فطری طور پر محبت پسند ہے، لیکن اس کے باوجود دُنیا میں ہر سو انسان کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہر جانب قتل و غارت، جنگ و جدل، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد، معاشرہ برائیوں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں رہی، ہماری پوری کوشش ہے کہ "انسانیت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے"ملکوں سے لے کر افراد تک سب نفرت کی آگ جلانے میں مشغول ہیں۔ نفرت کی یہ آگ دُنیا میں پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے، لیکن محبت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اس آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکانے میں مشغول ہے۔
اندھی محبت اور اندھی نفرت ایک انسان کودو انتہاؤں پر لاکھڑا کردیتی ہے یہ اسے حقائق سے ہی دور نہیں لے جاتی ہے بلکہ اس کے ذہنی اور مالی ارتقاء میں بھی رکاؤٹ بن جاتی ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے کو حقارت سے دیکھتا ہے تو وہ اس کی اصلاح نہیں، بلکہ اپنی نفرت پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جس انسان، کتاب یا چیز سے نفرت کرتا ہے اس کے مثبت پہلو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک انسان جس انسان، کتاب اور چیز سے محبت کرتا ہے اسے اس میں فقط اچھائیاں اور خو بیاں ہی نظر آتی ہیں اور اس کے منفی پہلو اس سے چھپے رہتے ہیں۔
اگر انسان اپنے فطری جذبہ ِمحبت کو جذبہ ِ نفرت پر حاوی کرنے کے لیے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنے اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر قابو نہ پاسکے۔ نفرت کی آگ بجھانے کے لیے پہلے ہر انسان کو خود اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا اور اپنی زندگی کو مثبت رجحانات کے تابع کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے دِل کو دوسروں کی نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ کر دُنیا کو محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
نفرت جذبہ ِ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ منفی رجحان دیگر ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایسے دوست و احباب کا انتخاب کرنا چاہیے جو نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کرتے ہوں، تاکہ معاشرے سے نفرت کا خاتمہ ہو اور زیادہ سے زیادہ محبت پھیلے اور منفی ذہنیت کے ایسے افراد سے مکمل اجتناب و کنارہ کشی کی جائے جو ہمیشہ نفرت پھیلانے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں۔
انسان میں فطری جذبات و احساسات میں سے محبت سب سے اہم جذبہ ہے۔ محبت کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ اسلام بھی انسان کو محبت پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان محبت کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں میں نفرت کے کانٹے نہیں، بلکہ پیار و الفت کے پھول بانٹتا ہے۔ محبت کا اظہار صرف صنف مخالف ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اولاد کے لیے بے انتہا شفقت، والدین کی خدمت، بزرگوں کی عقیدت اور دوست احباب کی رفاقت کے ان گنت رنگوں سے سجی زندگی محبت کا اظہار ہی تو ہے۔ سب سے مضبوط رشتہ جو افراد کو کنبے، سماج اور قوم بناتا ہے، وہ محبت ہی ہے۔
یہ محبت ہی تو ہے جو وطن کے لیے جان قربان کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ محبت دِل کی ایسی ریاست ہے، جہاں صرف سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ موجودات کی روح میں سب سے زیادہ نمایاں عامل محبت ہے۔ ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کا آپس میں محبت کا تبادلہ انسان کی اپنی مرضی سے ماوراء ہو تا ہے، کیونکہ منشاء ایزدی ان پر مکمل طور پر محیط ہو تی ہے۔ اپنی روح میں محبت کے بے جا استعمال سے اور اپنی ہی فطرت سے محبت لانے کے لیے ہرشخص کو چاہیے کہ دوسروں کی حقیقی مدد اور معاونت کرے، تاکہ معاشرہ محبت کا گہوارہ بن جائے۔
محبت فاتح عالم ہے۔ محبت دلوں کو اسیر کرتی ہے۔ محبت زندہ قوموں کا شعار ہے۔ محبت دلوں کو حیات بخشتی ہے اور انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ہمدری اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت انسان کی فطرت میں شامل اسی طرح کا ایک جزو ہے، جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر والوں سے، ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر، گلی، گاؤں، شہر اور ملک سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے، جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام فطرت کا ترجمان ہے، اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔ جس طرح اسلام دوسر ے اعمال کا حکم دیتا ہے، اسی طرح اسلام فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محبت کا حکم بھی دیتاہے، جو اللہ نے ہمارے دلوں میں القاء کی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ربُ اللعالمین ہے۔ ترجمہ:"اس اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔"جب کہ حدیث میں آتا ہے: "آپس میں تحفے تحائف دو اور محبت کرو۔"۔ اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینے کے لیے ہمدردی، اخوت، بھائی چارہ، ایثار وقربانی جیسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔ محبت سے آشنا ہونے والا انسان ایسے مرض کا شکار ہوجاتا ہے، جس کو کوئی دوسرا انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ہوا کیا ہے۔ انسان کھویا کھویا سا رہتا ہے، دِن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے، لیکن اس کی بیماری کوئی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ تو انسان کی انسان سے محبت کا احوال ہے اور اگر انسان کو اپنے خالق سے محبت ہوجائے تو اس کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔ انسان کو ہر کام میں صرف اپنے خالق کی مرضی پر عمل کرنے کی ہی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ سب سے اہم خدا تعالیٰ کی محبت کو پانا ہے ایک انسان دراصل اللہ تعالیٰ کا پروجیکٹ ہے، انسان جب انسان کے کسی جائز کام میں مدد کرتا ہے، گویا وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کا موجب بنتی ہے۔
انسان کا دل نظافت اور پاکیزگی کا محتاج ہوتا ہے اس میں نفرتیں اور کدورتیں رکھ کے کیا ملنا۔ ز ندگی ہوا کے دُوش پر رکھے کسی چراغ کی مانند ہی تو ہوتی ہے کہ نہ جانے کب کوئی منہ زور اور سر پھرا جھونکا آئے اور چراغ زیست کو ہمیشہ کے لئے گل کر جائے، ہمہ وقت بے یقینی اور بے ثباتی کے حصار میں گھرے اس چراغ حیات پر لوگ اس قدر ریجھ بیٹھے ہیں کہ جیسے کوئی طوفان بادوباراں اس شمع زندگی کو بے نور نہیں کر پائے گا۔ اگر اس ٹمٹماتے دئیے کی لو کے گرد غربت کے آزار کسی نوکیلے خار کی مانند حصار بنا لیں تو سانسیں دوبھر ہو جایا کرتی ہیں۔
کورونا بیماری کے ایام میں بھی ہم نے بیماری سے نہیں، انسانوں سے نفرت کی۔ ہماراانسانوں سے رویہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں نفرت انسان سے ہے، جرم سے نہیں۔ یہی ہماری تباہی کا موجب ہیں۔ ہمیں انسانیت، انسان سے محبت، احترام کرنا چاہیے، تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بنے، جرائم نہیں، انسانیت پھیلے، پھولے، ہمیں وطن کے امن، خوشحالی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔