Degree Aqal Ke Sath Insaniyat Bhi Kha Gayi
ڈگری عقل کے ساتھ انسانیت بھی کھا گئی
آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے علم کی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ زمانہ قدیم سے دور ِحاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے فطرت بشری سے مطابقت کی بناپر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے اس کے ابتدائی آثار ہمیں اسلام کے عہد مبارک میں ملتے ہیں۔ عزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت ؓ نے جوکاتب وحی تھے اسی طرح لکھنا سیکھا تھا اسی بات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اوران کا حصول کتنی ضروری ہے۔ جو لوگ معاشرے میں تعلیم حاصل کرتے ہوں وہ دینی ہو یا دُنیاوی اس انسان کا معاشرہ کے اندر اور اپنے گھر کے اندر ایک الگ مقام ہوتا ہے ایک نوجوان بچے کی قدر، بزرگ لوگ صرف تعلیم کی وجہ سے کرتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو تو یہ آدمی کو انسان بناتی ہے، ایک مہذب شہری بناتی ہے۔ اور اسی کی غیر موجودگی ہی کسی بھی شخص کے جاہل اور بے شعور ہونے کی ذمہ دار ہے۔ آج ہم اگر جہالت کے گہرے اندھیروں سے نکل کر شعور کے اشرف مقام تک پہنچے ہیں تو اس کے پیچھے صرف اور صرف تعلیم کا ہی ہاتھ ہے۔ پیارے نبی سرور کائنات حضرت محمد ﷺ نے بھی اس قوم کو جو کہ جہالت کے گہرے سمندروں میں ڈوبی ہوئی تھی نکال کر ایک اعلی و ارفع مقام عطا کیا تو اس میں بھی سب سے پہلی ابتدا مشہور و معروف حرف یعنی"اقراء"سے ہی ہوئی تھی۔"حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے، وہ جس قوم کی ابتدا، اقراء سے ہوئی تھی"۔
تعلیم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا، تعلیم کی بدولت ہی انسان ایک مہذب انسان کہلوانے کا حق دار کہلاتا ہے، یہ تعلیم کی موجودگی ہی اس کو اپنی زندگی کے بہتر فیصلے کر نے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہی تو وہ بنیادی زیور ہے جو اچھائی اور برائی کی وضاحت کرتا ہے۔ یہی تو ہے جو انسان کو اس کی حقیقت جانچنے پر فکر مند کرتی ہے، اس کو اپنی زندگی کا اصل مقصد جاننے پر مجبور کرتی ہے، تعلیم ہی تو ہے جو انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا بہتر پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
تعلیم ہی تو ہے جوکو اشرف المخلوق بناتی ہے، یہی وہ تعلیم ہے جو انسان کو بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے کا درس دیتی ہے، تعلیم ہی تو لوگوں میں محبت، خلوص، دوستی، اور امن پیدا کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ تعلیم لوگوں کو الفت کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے تلے آرام پہنچاتی ہے، اسی تعلیم کے نا ہونے سے ہی تو نفرت کے انبار جنم لیتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ آج ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی خلوص و محبت کی بجائے ناراضگی، نفرت، حسد اور کینہ جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
حالانکہ تعلیم ہی واحد چیز ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے، آج ہم اگر شہرت کے آسمانوں کو چھو رہے ہیں تو اس کے پیچھے تعلیم ہی ہے، اسی تعلیم نے ہم میں یہ شعور پیدا کیا کہ ہم زمین میں چھپے خزانوں کو بروئے کار لاکر انسانیت کو سکھ پہنچا سکیں، اسی کی بدولت ہی ہم ایک جنگلوں کی زندگی کی بجائے شہروں اور قصبوں میں بلند و بالا پر سکون زندگی جی رہے ہیں، اسی نے ہی تو پورے کے پورے گلوبل ورلڈ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اس تعلیم کے حقیقی مقصد کو ہی فراموش کر چکے ہیں۔ آج تو ہماری تعلیم کا اصل مقصد کچھ اور ہی بن چکا ہے۔ ہماری تعلیم کا اصل مقصد شعور و آگاہی، تہذیب اور تمیز تو قطعا ہی باقی نہیں بچا.آج ہم نے اس تعلیم کے اصل معانی کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے، ہم کو اس تعلیم کے حقیقی مقاصد سے تو اب بالکل بھی کوئی غرض نہیں رہی، ہم کو اس کی بنیادی تربیت سے کوئی مطلب نہیں، ہماری تعلیم کے اصول کے اصل مقاصد ہی پوری طرح تبدیل ہو چکے ہیں۔
آج ہم تعلیم کی ضرورت کو تو بہتر طریقے سے سمجھ رہے ہیں مگر اس کے اصل معنی اور مقصد سے پوری طرح لاغرض ہیں، آج ہمارا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہے۔ آج ہماری تعلیم کا حقیقی مقصد صرف بہتر روزگا کی تلاش ہے، ہم آج تعلیم کو مختلف طبقات میں تقسیم کر چکے ہیں، اور ان طبقات کے ساتھ بھی ہم نے روزگار جوڑ رکھے ہیں۔ آج ہزاروں اقسام میں تعلیم کو تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ان کے چناؤ میں بھی ہم بہت ہی سوچ وبچار سے کام لیتے ہیں، بہت ہی زیادہ مشاورت سے ان کے اختیار کرنے کا فیصلہ لیتے ہیں پڑھے لکھے لوگوں کی رائے لیتے ہیں کہ آیا کہ کونسی تعلیم میرے مستقبل کو چا ر چاند لگا سکتی ہے اور مستقبل کا ایک چمکتے سورج کی مانند دیکھ سکتا ہوں۔ ایسی ڈگری جو میری پوری زندگی کو پیسوں ہی پیسوں سے بھر کر رکھ دے گی۔ ایسی کونسی تعلیم ہوگی جس سے میں پوری زندگی عیش وعشرت سے گزار سکوں گا؟ ایسی کوئی تعلیم مل جائے جو مجھ کو پوری دُنیا سے زیادہ امیر بنا دے۔ مجھے کوئی ایسی ڈگری دلوادی جائے جس کی بدولت میں بینک بیلنس کے ڈھیر لگا لوں۔ اپنے مستقبل کو تابناک بنالوں۔
ہم اس تعلیم کے حصول کے وقت بھی کچھ سیکھنے کی بجائے صرف اور صرف اچھے گریڈیا اچھے نمبروں کے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ ہمیں ماضی بھول گیا کہ تعلیم و تربیت ہی تو ہے جس کی بدولت اسلام پوری دُنیا کے کونے کونے میں پھیلا۔ اسی تعلیم نے ہی انسان کو انسان بنایا تھا، اسی سے ہی طرف اجالے ہوئے، یہی وہ تعلیم تھی جس نے انسان کو اتنی ترقی دی تھی۔ اسی تعلیم نے انسان کو اس کی خودی کی پہچان دی تھی۔ ہم کو اس کے حقیقی مقصد کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دینی اور دُنیاوی تعلیم کے حصول سے زیادہ اس کے معانی اور مقاصد کا حصول زیادہ لازم ہے۔ تعلیم ایمان بھی ہے، نظم و ضبط بھی، کردار بھی، یقین بھی، زندگی کا ربط بھی، تعلیم ہمت بھی ہے، عظم و عمل بھی، بندگی بھی، رحمت بھی، لطف و فضل بھی، تعلیم تہہ سمندر بھی خلا کی کہکشاں بھی، جو ستاروں سے آگے وہ جہاں بھی، تعلیم کھوج بھی ہے، فکر معاش بھی، زیر زمیں، دفینوں کی تلاش بھی۔
آج بھی اگر ہمیں ترقی، خوشحالی چاہیے تو ڈگری کے کاغذ کی دوڑ کے بجائے آدمی سے انسان بنانے والی تعلیم و تربیت، شعور و آگاہی کو فروغ دینا ہو گا۔ تا کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اس کا صحیح استعمال کرسکیں، اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم دُنیا کے ان ملکوں میں شمار ہونا شروع ہوجائے گا جو جدید علوم سے مستفید ہوتے ہیں، ورنہ ایک اعلیٰ ڈگری ہولڈر اظہار خیال، اخلاقی تہذیب سے نابلد نظر آتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ ڈگری جوصرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ تو ہماری عقل کے ساتھ انسانیت بھی کھا گئی!