Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Ali/
  4. Warna Hum Bhi Sitaron Par Kamand Dal Hee Dete

Warna Hum Bhi Sitaron Par Kamand Dal Hee Dete

ورنہ ہم بھی ستاروں پر کمند ڈال ہی دیتے

انسانی سوچ اور نظریات کا انسانی زندگی میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ انفرادی سوچ صرف ایک فرد کو متاثر کرتی ہے جبکہ اجتماعی سوچ معاشرے اور قوموں کو متاثر کرتی ہے اِسی سوچ سے معاشروں کی تعمیرہوتی ہے اور اِسی سوچ سے معاشرے تباہ بھی ہوتے ہیں بطور پاکستانی ہماری اجتماعی اور انفرادی سوچ کیا ہے؟ اِس کو سمجھنے کے لیے دو کہانیاں یا مثالیں قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

بات کچھ یوں ہے کہ لکھاری کا واسطہ فیس بک پر ایک ایسے شخص سے ہوا جو دعویٰ کرتا تھا کہ اِس دنیا میں سیٹلائٹ سسٹم کا کوئی تصور نہیں یہ اہل یورپ کا دنیا پر حکمرانی کرنے اور پوری دنیا پر اپنی علمی برتری کا ڈھونگ رچانے کے لیے محض ایک جھوٹ پر مبنی پُروپیگنڈا ہے۔ اب آپ اُس بندے کی سوچ کی سمت یا اُس کی قابلیت کا اندازہ اِس بات سے لگا لیں کہ بندہ یہ دعویٰ اہل یورپ کی ایجاد فیس پر بک پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر رہا ہے۔ فیس بک وہ سوشل سائیٹ ہے جو انٹر نیٹ کے کُنکشن بغیر نہیں چلتی دوسری مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ لکھاری نے کچھ دن پہلے فیس بک پر اپنے ایک جاننے والے کی ایک پوسٹ پڑھی جو کہ ایک تحریر کی صورت میں تھی تحریر یہ تھی کہ فلاں خاندان کے پانچویں فرد نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہے اور ایک ہی خاندان کا پانچوان فرد کیوں؟

کوئی غریب کا بیٹا کیوں نہیں؟ کہیں اِس کے پیچھے کچھ اور محرکات تو نہیں؟ وغیرہ وغیرہ حالاں کہ پوسٹ کرنے والا بذات خود ایک پڑھا لکھا اور پاکستان ائیر فورس کا ملازم تھا۔ ساتھ ساتھ قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں اِس کی ائیر فورس میں ملازمت میرٹ کی بنیاد پر لگی تھی لیکن وہ شاید یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے آبائی گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کے ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والا محنتی اور لائق لڑکا سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ کمشنر لگ چُکا ہے۔

بطور پاکستانی ہماری انفرادی اور اجتماعی سوچ و نظریات کیا ہیں قارئین سب سمجھ تو چکے ہوں گے ہم ایک کاہل، سُست اور ترقی کرنے والوں کے دشمن سوچ کے حامل قوم ہیں۔ سوچ کا یہ فارمولہ پوری پاکستانی کمیونٹی پر لاگو نہیں ہوتا لیکن بیشتر پر ضرور ہوتا ہے۔ ہم ہر اُس ترقی کرنے والے شخص کو اُس کی محنت کو نظر انداز کرتے ہوئے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں چاہے اُس کامیاب ہونے والے شخص نے کامیابی کے فارمولہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دن رات محنت کی ہو اور تب جا کے اُسے یہ کامیابی ملی ہو، لیکن ہم نے اُس کی اِس کامیابی کو شارٹ کٹ اقربا پروری رشوت ستانی کے زمرے میں ڈال دینا ہے۔

مسئلہ یہاں تک محدود نہیں ہے کہ ہم انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ محنت کے زریعے آگے نہیں بڑھا جا سکتا یا فلاں کام اگر ہم نہیں کرسکتے تو کوئی اور بھی نہیں کرسکتا اگر ہم سٹیلائٹ نہیں بنا سکتے تو پوری دنیا میں کوئی مائی کا لال سیٹلائٹ نہیں بنا سکتا اور یہ سب جھوٹ پر مبنی اہل یورپ کا پروپیگنڈا ہے یا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم بغیر رشوت یا دیگر شارٹ کٹ کے سی ایس ایس کاامتحان پاس نہیں کر سکے تو کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے۔

اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اپنی اِس غیر حقیقی سوچ و نظریات کا دھڑلے سے پرچار کرتے ہیں جس سے اُن غریب محنتی اور اِیماندار بچوں کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے۔ اُن کے اعتماد و یقین میں کمی آ جاتی ہے جو کچھ کر گزرنے کا پُختہ ارادہ کیے بیٹھے ہیں ہمیں بطور معاشرہ اپنی اِس اجتماعی سوچ و نظریات کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے اِن غیر حقیقی ناکام لوگوں کی من گھڑت تھیوریز اور فلسفوں بچانا ہو گا ہمیں اُنہیں بتانا ہوگا کہ محنت کرنے سے ایک نا ایک دن کامیابی مل ہی جاتی ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ ہم ناکام لوگوں کی اِن من گھڑت فلسفوں کے شکار ہوکر محنت چھوڑ کر ناکام لوگوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ورنہ آج ہم میں سے ضرور کسی نا کسی نے ستاروں پر کمند بھی ڈال دینی تھی۔

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas