Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abdurehman Khan/
  4. Muqadas Maqamat Ka Ehteram

Muqadas Maqamat Ka Ehteram

مقدس مقامات کا احترام

سیاست میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت شدت پسندی کی شکل اختیار کر چکی ہے، کسی مقدس مقام کا احترام کئے بغیر یہ اخلاقی اور مذہبی حدود پار کر گئے ایسے کارکنوں کے رہنماؤں کو غور کرنا ہوگا کہ یہ اپنے متضاد بیانیہ کو بنانے میں معاشرے کو کس طرف لے جا رہے ہیں، مسجد نبوی میں افسوسناک واقعہ نہ صرف دینی جذبات اور ملکی وقار پر حملہ ثابت ہوگا بلکہ یہ خطرناک رجحان کی طرف بڑھنے کی نشاندھی کر رہا ہے، روضہ رسول میں کچھ افراد کی نعرے بازی سے حکومتی وفد اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی قد کاٹ میں تو فرق نہیں پڑا، مگر ایسے لوگوں نے مسجد نبوی کا تقدس پامال کیا، اور خود کو غیر مہذب، ان پڑھ، اور گنوار قوم دنیا کے سامنے پیش کیا۔

سب سے بڑھ کر ادب احمد مجتبیٰﷺ کو بھلا دیا، اور ایسی تربیت دینے اور بیانیہ بنانے والا لیڈر اسے اپنی کامیابی اور مقبولیت تصور کرتا ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے، جناب رعایت اللہ فاروقی نے خوب وضاحت کی، کہ مقدس مقامات میں بلند آواز نہ صرف ممنوع بلکہ اس پر وعید بھی سنا دی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کیا کرو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر ہی نہ ہو" سورہ حجرات

جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیسؓ اپنے گھر پر گوشہ نشین ہوگئے۔ ہر وقت روتے اور کہتے، میں جہنمی ہوگیا۔ کچھ دن انہیں مسجد نبوی میں نہ پا کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذؓ سے ان کی خیریت دریافت فرمائی۔ حضرت سعد نے بتایا کہ یا رسول اللہ وہ میرے پڑوسی ہیں۔ میں نے ان کی بیماری کا تو نہیں سنا، میں جا کر خبر لے آتا ہوں۔

وہ حضرت ثابت بن قیس کے گھر پہنچے اور حال پوچھا تو حضرت ثابت نے فرمایا کہ تم تو جانتے ہو میری آواز قدرتی طور پر دوسروں سے بلند ہے۔ لھذا میں تو جہنمی ہوگیا اور اب مجھے یہی غم کھائے جا رہا ہے۔ حضرت سعد واپس مسجد نبوی آئے اور رسول اللہ ﷺ سے ساری تفصیل عرض کردی۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا، جاؤ انہیں میری طرف سے بتاؤ کہ وہ جنتی ہیں۔

یہی آیت ہے جس کے نزول کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، یا رسول اللہﷺ میں آئندہ آپ سے سرگوشی میں بات کیا کروں گا۔

یہی آیت ہے جس کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ کا مستقل معمول یہ بن گیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے بات اتنی دھیمی آواز میں فرماتے کہ بسا اوقات رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ پوچھنا پڑ جاتا تھا۔

حضرت سائب بن یزیدؓ روایت کرتے ہیں: میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا مجھے ایک شخص نے کنکری ماری۔ میں نے دیکھا تو سیدنا عمر فاروقؓ تھے۔

فرمایا: ان دو آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ۔

میں لے کر گیا تو آپ نے ان سے پوچھا: تم دونوں کہاں کے ہو؟

انہوں نے کہا: طائف سے ہیں۔

آپؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تمہیں سزا دیتا۔ تم رسول اللہﷺ کی مسجد میں آواز بلند کررہے ہو!

کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ آیت اور روایات تو اس صورتحال سے متعلق ہیں جب آپ ﷺ حیات تھے۔ اس دنیا میں موجود تھے۔ لھذا اب شاید گنجائش موجود ہو تو ایسا ہرگز نہیں۔

حضرت امام مالک رحمہ اللہ مسجدنبوی میں درس دیا کرتے تھے۔ آواز دھیمی ہوتی جس سے پچھلی صف والے شاگرد سن نہ پاتے تھے۔ چنانچہ ایک شاگرد نے تجویز دی کہ آپ کسی بلند آواز شخص کی ذمہ داری لگا دیجئے کہ وہ آپ کا کہا بلند آواز سے پوری مجلس تک پہنچا دیا کرے۔ اس پر امام مالک نے فرمایا کہ سورہ حجرات والی آیت کا اب بھی وہی حکم ہے جو دور رسالت میں تھا۔ اس مسجد میں آواز بلند نہیں کی جاسکتی۔ اور یہی دیگر فقہاء کا بھی موقف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسجد حرام میں تو ہمیں لوگ بیٹھے باہمی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں لیکن مسجد نبویﷺ میں مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ لوگ آپس میں کوئی ضروری بات بھی سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ مسجد نبوی میں ایک ہلکی سی گونج صاف محسوس ہوتی ہے مگر یہ تلاوت اور درود شریف کی گونج ہوتی ہے۔

یہ تو مسجد نبوی کی صورتحال ہے ورنہ شہر مدینہ کا بھی لوگوں نے اس درجہ احترام کیا ہے کہ بعض فقہاء نے اپنی پوری زندگی میں اس شہر میں جوتی نہیں پہنی۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا، میں ڈرتا ہوں کسی ایسی جگہ میری جوتی نہ پڑ جائے جہاں رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک پڑے ہوں۔ سو میرے عزیز! یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ نہ تو مدینہ منورہ لاہور ہے اور نہ ہی روضہ رسول داتا دربار۔

ایسے میں ہمارا معاشرہ کس طرف بڑھایا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی سے زیادہ سیاسی شدت پسندی خطرہ بن گئی ہے، قوم کے دو بٹوارے ہو گیا ہے، ایک عمران خان کے حامی اور دوسرے اس کے مخالف۔

دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔ تاہم عمران خان کے حامی اور وہ خود انتہائی غیر اخلاقی زبان و حرکات کا استعمال کرتا چلا آتا ہے۔

جس سے معاشرے میں انارکی پھیلتی چلی جاتی ہے اور عمران خان جب سے کرسی اقتدار سے محروم ہوا ہے وہ ملک کو اسی سیاسی انتشار کی طرف لے جانے کے درپے ہیں۔

جس کی چنگاریاں گلی، چوکوں اور اداروں سے ہوتے ہوئے مقدس مقامات تک پہنچ چکی ہے۔ اور یہی اس کے لئے باعث زوال اور سبب زلت ثابت ہوگا۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz