Aur Dawn Behta Raha
اور ڈان بہتا رہا
میرے خیال میں سردیوں کا موسم ناول پڑھنے کا بہترین موسم ہے۔ سردیوں کی لمبی راتیں کاٹنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ بندہ ایک ناول کے کردار کی طرح دنیا کے کسی کونے کی سیر پہ نکل جائے۔ کسی ان دیکھے نگر میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لے اور وہاں کے باسیوں کے دکھ درد، ان کی ہنسی خوشی میں شریک ہوکر وہاں چند خوبصورت لمحات بتانے کے بعد نئے خیالات کا امبار لئے اپنی محدود دنیا میں لوٹ آئے۔
پچھلے دنوں ایک ایسا ہی ناول ہاتھ لگا جو بیسویں صدی کے روس میں کئی سالوں تک گھما کر واپس لے آیا۔ میخائل شولوخوف کا ناول "اور ڈان بہتا رہا" کو پڑھتے وقت محوس ہوا کہ میں"ڈان" کے کنارے میں مقیم ایک کاسک ہوں اور ہر صبح جب صحن سے جھانکتا ہوں تو بہتا ہوا ڈان میری نظروں کے سامنے پیچ و تاب کھاتا ہوا سالوں سے اپنے سفر پہ رواں دواں ہے۔ اب ایسا لگتا ہے جتنا یہ دریا کاسکوں (دریائے ڈان کے کنارے بسنے والی ایک بہادر قوم) کو عزیز ہے اُتنا مجھے بھی اس سے انسیت ہے۔
یہ ناول دیکھنے میں تو 552 صفحات پر مشتمل ایک موٹی کتاب ہے لیکن جب پڑھنے بیٹھؤ تو پتہ نہیں چلتا کہ کب شروع کی اور کب ختم ہوگئی۔ کہانی شروع ہوتی ہے 1917 کے انقلاب سے پہلے ڈان کے کنارے ایک چھوٹی سی گاؤں ٹاٹارسک سے۔ جہاں ایک کاسک سپاہی اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ رہتاہے۔ کھیتوں میں ہل چلا کر، ڈھور ڈنگر پال کر اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ پینٹلیمون (اسی خاندان کا سربراہ) کے جوان بیٹے گریگر کو اپنی ایک پڑوسی عورت سے عشق ہوجاتا ہے جس کا شوہر زار کی فوج میں رضاکارانہ طور پر خدمات سر انجام دینے گیا ہوا ہے۔ گریگر بھی اسی عورت (ایکسینیا) کی منظورِ نظر بن جاتی ہے اور پھر دونوں کی راتیں رنگین ہونے لگتی ہیں۔
کہانی کی شروعات میں ایسا لگتا ہے کہ آپ کوئی رومانوی داستان پڑھ رہے ہیں جو ایک روایتی معاشرے میں پنپ رہی ہے۔ لیکن جوں جوں آگے بڑھتے جائیں گے تو کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ جرمنی اور روس کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد ڈان سے دھڑا دھڑ کاسکوں کی بھرتی شروع ہوجاتی ہے۔ سارے رومان جنگ کی نظر ہوجاتے ہیں۔
پینٹلیمون کے دونوں بیٹے گریگر اور پیوٹرا جو پہلے کھیتوں میں گیہوں بو کر اور ڈھور ڈنگر پال کر اپنا گزر بسر کرتے تھے اب فوج میں بھرتی ہوکر سرحد پر جاتے ہیں۔ جرمنوں سے لڑتے ہوئے کبھی خود زخم کھاکر موت کے منہ سے بچ نکلتے ہیں اور کبھی دشمن کو تلواروں سے چیر رہے ہوتے ہیں۔ اسی دوران گریگر کئی سینٹ تمغے جیت کر ایک معمولی سپاہی سے افسر بن جاتا ہے۔
جوں جوں جنگ طول پکڑتی ہے بالشویک سر اٹھانے لگتے ہیں اور روس پر زار کی حکومت کا خاتمہ کرکے مزدوروں کی حکومت کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ زار کی فوج کے اندر سے ایک بڑا گروہ انقلابیوں کے ساتھ ہولیتا ہے۔
بالآخر زار کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے اور سنکدرِ اعظم کی طرح اس کے جرنیل اقتدار کے لالچ میں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہوتے ہیں۔
اب جرمنی سے جنگ کی بجائے روسی آپس میں الجھ پڑتے ہیں۔ ایک طرف بالشویک روسی فوج کے خلاف مسلح ہوتے ہیں تو دوسری طرف روسی فوج دو جرنیلوں کی خاطر آپس میں دست و گریبان ہوتی ہے۔
اِدھر کاسک ڈان کے صوبے میں اپنی خود مختار حکومت کا خواب سجائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف کاسکوں کا ایک بہت بڑا گروہ سرخ فوج میں شامل ہوتا ہے۔ اب ایک ہی علاقے اور ایک ہی قوم کے مختلف گروہوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹھکرا جاتے ہیں اور یہی کاسک اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے پر تُلے ہوتے ہیں۔
ہرجگہ یہی صورتِحال دکھائی دیتی ہے۔ جہاں بھی مفادات کی جنگ ہو تو سب کچھ مفاد ہی ہوتا ہے۔ نہ بھائی بندی کام آتی ہے اور نہ قوم پرستی۔ کاسک بھی اسی آگ میں کھود پڑتے ہیں اور روس مکمل طور پر خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دی جاتی ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن، اور دشمن کا دشمن دوست بن جاتا ہے۔
اس خانہ جنگی سے لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں اور پورا ملک بحران کا شکار ہوتا ہے۔ اس دور میں روس کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر کاسکوں کی مزاج اور رویّے میں جو تبدیلی آتی ہے اسے ناول نگار نے نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
پڑھتے وقت کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ آپ خود بھی تلوار لئے اپنے گھوڑے پہ سوار محاذ پہ جارہے ہیں۔ کسی خندق میں بیٹھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ کس کا ساتھ دوں؟ کون حق پر ہے اور کون ظالم ہے؟ ایسی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے کہ قاری کا دھیان ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں بھٹکتا۔ قاری خود کو انہی کھیتوں اور انہی خندقوں میں پاتا ہے جہاں گریگر کبھی بیٹھ کر اپنی محبوبہ ایکسینیا کے بارے میں سوچ رہا ہے تو کبھی دشمن کو پسپا کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک بہترین کتاب ہے اور میری زندگی میں جن کتابوں نے مجھے متاثر کیا ہے یہ بھی اسی فہرست میں شامل ہوگئی۔ احباب کو مشورہ ہے کہ یہ کتاب ایک بار ضرور پڑھیں۔