Raye Rakhna Aur Iska Izhar Jurm Hai
رائے رکھنا اور اسکا اظہار جرم ہے
الیکشن قریب آتے ہی خبروں کی بھرمار ہوجاتی ہے مگر اس نیوز کے شبعے سے منسلک ہونے کا نقصان یہ کہ کوئی بھی خبر نئی نہیں لگتی ہے مگر ایک آدھی خبر ایسی ہوتی ہے جو کچھ سوچنے پر مجبور ہوتی کرتے ہے آج بھی کچھ ایسی ہی ایک خبر ہے وہ یہ کہ وفاق کی نگران حکومت نے سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم، کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلیجنس اداروں پر مشتمل ایک جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو سپریم کورٹ کے ججز کی ساکھ متاثر کرنے والوں کا تعین کرے گی۔
اس میں کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی ماضی کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی یاد آئی جس پراربوں ڈالر خرچ کیے گئے اور وہ بھی اس وقت میں جب لوگ بھوک سے مرےہے تھے مگر افسوس اس بات کا کہ وہ تمام تر تحقیقات بلکل کام نہ آئے اور نہ وہ کوئی روپے واپس لاسکے۔ اس بار بننے والی کمیٹی اس سے تھوڑی مختلف نوعیت کے کیس پر ہے مگر اس کا نتیجہ ہم کو پہلے سے معلوم ہوگیا کہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہوگا۔
اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کے تحت قائم کردہ یہ جے آئی ٹی عدلیہ مخالف مہم اور ججز کی ساکھ متاثر کرنے والوں کا تعین کرے گی، جس کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مہم کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ مگر اس نوٹیفکیشن کے بعد آزادی رائے اور بنیادے انسانی حقوق بھاڑ میں جائیں اگر کوئی عدلیہ کے فیصلے سے متفق نہیں تو اس کو بس چپ ہو کر رہنا پڑے گا۔
مزید کہ جے آئی ٹی ملزمان کے خلاف چالان متعلقہ عدالتوں میں پیش کرے گی، اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے اقدامات تجویز کرے گی لوگوں کے لیے عبرت بنایا جائے گا جی کوئی آزاد سوچ نہ رکھے۔
نوٹیفکیشن کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈی جی کی سربراہی میں یہ جے آئی ٹی 15 دنوں میں ابتدائی رپورٹ وزرات داخلہ کو بھیجے گی۔
جے آئی ٹی کی تفصیلات کے مطابق اس میں ایف آئی اے کے علاوہ آئی بی، آئی ایس آئی، ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس اور پی ٹی اے کا ایک، ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ اور اس کو اتنا زلیل کیا جائے گا کہ وہ دوبارہ کسی ناجائز فیصلے کے خلاف بھی چپ رہے۔
ان تمام میری باتوں سے آپ کو اختلاف رکھنے کی اجازت ہے مگر میں اپ کو یہ بات بتادوں کہ جس کی وجہ سے جے آئی ٹی بن رہی ہے یعنی عدالت وہ دنیامیں ایک سو انتالیسویں نمبر پر ہے۔ اور وہ شخص جب سے ایا ہے صرف چند ایک فیصلے کر سکا باقی زیادہ تر فیصلے ابھی تک پینڈنگ ہیں۔