Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Khattak
  4. Kya Pakistan Ka Kal Aaj Se Mukhtalif Hoga?

Kya Pakistan Ka Kal Aaj Se Mukhtalif Hoga?

کیا پاکستان کا کل آج سے مختلف ہوگا؟

کیا ہمارا مستقبل تابناک ہوگا؟ کیا ہمارا مستقبل تاریک ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات سمجھنے کے لیے ہمیں خود میں جھانکنا ہوگا مگر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی ہو چکی ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنی عوامی حمایت کے دعوے کر رہی ہیں اور نوجوان طبقہ تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ ایک ایسے وقت میں، جب صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر ہر طرح کا سیاسی توڑ جوڑ واضح نظر آ رہا ہے، پاکستان کا نوجوان طبقہ ملک میں مثبت تبدیلی کا خواہاں اور منتظر نظر آتا ہے۔

کیا پاکستان کی نئی نسل کا کسی امید بہار کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ ان تمام باتوں سے آج کے نوجوان کے ذہن میں ایک سوال ضرور آتا ہے کہ کیا پاکستان ریاستی طور پر قائم رہے گا یا ٹوٹ جائے گا؟ میرے خیال میں آج کا طالب علم پاکستان کا مستقبل ہے وہ توڑنا چاہتا ہے یا پھر اسے سلامت رکھنا چاہتا ہے وہ اسی پر منحصر ہے۔ ریاست کوئی خلائی نظریہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اصطلاحی، اس کا مطلب یہ کہ ایک ہی خطے میں لوگ کسی سیاسی نظریے کے تحت رہ رہے ہوں۔ وہاں کے افراد کو انصاف دینے سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست فعال ہے یا غیر فعال۔ مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیسا ہوگا؟

پچھلے 30 برس میں پاکستان میں تقریباََ 14 کروڑ انسان پیدا ہوئے ہیں اور ان برسوں میں جو کچھ پڑھایا گیا ہے، جو کچھ سیکھایا گیا اور جو کچھ بنایا گیا ہے وہی آج کا پاکستان ہے۔ اس سے ہم پاکستان کے مستقبل کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں یعنی پاکستان کا مستقبل اس کی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ ان کی تعلیم، صحت، ذہنی حالت اور ماحول جو ان کو دیا جائے کل کا پاکستان ہے۔ وہ کیسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہی ریاست کا علمی قد طے کرے گا۔

ان کی صحت جیسی پاکستان کے مستقبل کی صحت بھی ہوگی۔ ان بچوں کو ذہنی سطح جو آج دی جا رہی ہے وہی کل پاکستان کی ذہنی سطح ہوگی۔ ان بچوں کو جو ماحول دیا جا رہا ہے کل پاکستان کا بھی ماحول ہوگا۔ کشمیر کے خطے سے لے کر بلوچستان کے ساحل تک ہمارے بچے جس قسم کے ماحول سے گزر رہے ہیں، کس قسم کا عدم تحفظ انہیں لاحق ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو کیونکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

فطرت نے انسان پر کرم کیا اور ساتھ میں ایک محتاجی بھی دی ہے۔ کرم یہ کیا کہ تمام جانوروں سے بڑھ کر مختلف زاویوں سے سوچنے اور جانچ پڑتال کرنے کے لئے دماغ دیا اور محتاجی یہ کہ اس کو rational ہونے میں دس بارہ سال لگتے ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے بچے کو اپنے والدین، ماحول اور معاشرے کو درست کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ بھی دور ہوتا ہے جو اس کی سوچیں چھین کر اس میں طے شدہ نظریات ڈال دیے جاتے ہیں اور rational ہونے سے قبل ہی اس کی rationality چھین لی جاتی ہے۔ اس کو کیا معلوم اس کو بنیادی حس سے محروم کر دیا گیا، اس کو کسی جانور سے ممتاز کرتا ہے۔

اس وقت ملک کا 75 فیصد وہ ہے جو ہم نے تیس برس قبل پاکستان کے مستقبل کے طور پر تیار کرنا تھا۔ گزشتہ برس سوا تین کروڑ کے قریب بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباََ ساڑھے تین کروڑ بچے ہیں ان کو دیکھ لیجئے آپ کو یہی 20 برس بعد کا پاکستان نظر آ جائے گا۔ ہم نے کچھ دہائیاں قبل جو مستقبل تیار کیا تھا آج ہم اس کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے کوئی آئن سٹائن تو تیار نہیں کیا تھا۔ فطرت کا عمل ہے جو بؤو گے وہی کاٹو گے۔

کسی بھی ملک کا نظام تعلیم آئینہ ہوتا ہے اس میں دیکھ کے آپ آسانی سے اپنے مستقبل کے چہرے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار اور ماہر تعلیم ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں واضح الفاظ میں کہا، "میرے خیال میں پاکستان میں آئندہ سو برسوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی"۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر معاشرے کی ترقی اور استحکام کا دارومدار وہاں کی افرادی قوت پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سندھو کے بقول، "ہیومن ریسورسز کا گڑھ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ جب ان اداروں میں قانونی بے راہ روی اور ذاتی مفادات کی دوڑ کے سوا کچھ نہیں ہوگا تو وہاں کی نوجوان نسل کتنے بھی خواب دیکھ لے، کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی"۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد بھی بات کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی 8، 9 کا بچہ بات کر رہا ہے۔ ایسا شخص جس نے نصابی کتب رکھنے کے علاوہ کوئی کتاب نہ پڑھی ہو اور معلومات کا خزانہ چند TV پروگرام پر ریاستی اشرافیہ کے طے کردہ بیانے پر مسلم ایمان کی صورت پر ہو۔ جہاں کسی سوال یا تجسس کا اتا پتہ نہ ہو۔ جو یہ تک سمجھنے کو تیار نہ ہو کہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے وہ فقط چند افراد کا منصوبہ ہو سکتا ہے اور علم سے کوئی ممکنہ تعلق نہ ہو۔

پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور اگر انہیں سماجی اور سیاسی جگہ دی جائے تو وہ سیاست میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے 1984ء میں طلباء یونینوں پر پابندی نے پاکستانی معاشرے کی نوعیت ہی بدل دی کیونکہ یونیورسٹی کیمپس میں طلباء کی سیاست ختم ہوگئی اور اس کی جگہ مذہبی و نسلی عناصر نے لے لی۔

"یہ پابندی نوجوانوں میں بنیاد پرستی کا باعث بھی بنی، خاص طور پر جب 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں اور پھر 1990ء کی دہائی میں کشمیر کے جہاد میں مختلف نوجوانوں نے حصہ لیا۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں میں تنقیدی سوچ اور لچک پیدا کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے اور انہیں مستقبل کے فیصلہ سازی کے لیے تربیت دے"۔

ہمارے ملک کا بجٹ بتا سکتا ہے کہ ہمارے مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ جب آپ کو بچے کسی سکول میں نیچے ٹاٹ پر بیٹھے دکھائی دیں، کوئی بچہ پولیو کا شکار نظر آئے تو سمجھ لیجئے یہ پاکستان کا مستقبل ہے اور اگر کوئی بچہ زیادتی کا شکار ہو یا کوئی سکول موجود ہو اور اس میں پڑھانے کے لئے استاد نہ ملے تو سمجھ لیجئے یہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر نصابی تعلیم میں جھوٹ دیکھائی دے بچے تاریخ، سائنس، ریاضی میں فرق نہ کر سکیں یا کسی جگہ سکول کا وجود نہ ہو مگر کاغذ پر ملے تو سمجھ لیجئے پاکستان کا مستقبل ہے۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq