Khush Aaind Iqdam
خوش آئند اقدام
صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آئے تو اس کو بھولا نہیں کہتے ہیں پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبدالہیان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے۔ ایران وزرائے خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع پر تبادلہ خیال ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق جلیل عباس جیلانی نے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے پاکستان کی آمادگی کا اظہار کیا۔
اس قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فوری بعد نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں قومی کابینہ سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کسی بھی ہمسائے سے کشیدگی نہیں چاہتا جبکہ ایران بھی کشیدہ صورتحال کا خاتمہ چاہتا ہے۔ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایران کا غلط قدم کا جواب دیا۔ کابینہ میں ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیوں کہ عوام کے اس وقت کے مسائل اور ہیں اور پہلے بھی ہم دنیا سے پیچھے اسی وجہ سے ہیں۔ پاکستان تین بڑےاہم مسائل سے دوچار ہے، ایک ناقص نظام تعلیم جس نے بڑے پیمانے پر ناخواندگی کو فروغ دیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ دوسرا مسئلہ انصاف کی عدم دستیابی ہے اور تیسرا جاگیردار سیاستدانوں کا ملکی سیاست اور نظام پر تسلط۔
پاکستان کی ترقی کیلئے پہلی اور سب سے اہم ضرورت ایک ایماندار اور تکنیکی طور پر قابل قیادت ہے جو جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مضبوط علمی معیشت کی ترقی کو سمجھتی ہو اور ترجیح دینے کی اہل ہو۔ صرف ایسی قیادت اور حکومت ہی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی (Innovation) پر بھرپور توجہ دے سکتی ہےاور پاکستان کی راہ کو تبدیل کرکے علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقل کر سکتی ہے۔
پاکستان نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی سے مالا مال ہے۔ ہماری 225 ملین کی آبادی کا تقریباً 70فیصدنو جوانوں پر مشتمل ہے۔ انہی میں ہمارا مستقبل مضمر ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور ملکی ترقی کی سمت درست کرنے کیلئے ہمیں کئی ایشیائی ممالک کی کامیابیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔
مجھے لگتا ہے کہ اب جنگ نہیں بلکہ دنیا کی ترقی تک پہچنے کے لیے ٹکنالوجی کی جدت کو اپناتے ہوئے منزل تک پہچنا پڑے گا۔ پہلے جنگ مسائل کا حل ہوتا تھا مگر اب یہ ہم کو دنیا سے پیچھے تو لے کر سکتا ہمیں دنیا میں ترقی کی طرف نہیں لے کر جاسکتا ہے۔