Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abdullah Khattak/
  4. Intikhabat Takheer Ka Shikar?

Intikhabat Takheer Ka Shikar?

انتخابات تاخیر کا شکار؟

ملک میں گزشتہ ایک برس کے دوران جب بھی عام انتخابات کی ڈول ڈالے جانے لگتا ہے کوئی نہ کوئی ایشو پیدا کرکے اس عمل کو ثبو تاژ کرنے کی کوششوں شروع ہو جاتی ہے۔ اس بار سپریم کورٹ کی جانب سے دو ٹوک حکم نامہ کہ الیکشن 8 فروری کو پتھر پر لکیر ہیں کے بعد بھی اس بارے ابہام پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ کبھی موسم کو بنیاد بنایا جا رہا ہے اور کبھی دہشتگردی کے اکا دکا واقعات کو مثال کے طور پیش کیا جا رہا ہے۔

آج ٹھیک اس وقت جب سپریم کورٹ میں تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت میں جاری تھی اور چیف جسٹس تاحیات نا اہلی کو صاف اور شفاف الیکشن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے جلد حل کرنے کی بات کر رہے تھے اسی وقت سینیٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی ایک قرداد پیش کر دی گئی۔ یہ قرار داد آزاد سینیٹر ہمایوں دلاور جو سنیٹر تو مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے منتخب ہوئے لیکن اپنی پارٹی کی منشا اور مرضی کے بغیر ایک قرار داد لے آئے۔ اور یہ قراداد اکثریت سے منظور بھی کر لی گئی۔

قرار داد میں موقف اختیار کیا گیا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال خراب ہے، مولانا فضل الرحمان اور محسن داوڑ پر حملے ہوئے ہیں جبکہ ایمل ولی خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو تھریٹ ملے ہیں، الیکشن کے انعقاد کیلیے ساز گار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ محکمہ صحت ایک بار پھر کورونا کے پھیلنے کا عندیہ دے رہا ہے، چھوٹے صوبوں میں بالخصوص الیکشن مہم چلانے کیلیے مساوی حق دیا جائے اور الیکشن کمیشن شیڈول معطل کرکے سازگار ماحول کے بعد شیڈول جاری کرے۔

اپنی قرارداد کی حمایت میں سینیٹر دلاور خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے وہ شفاف الیکشن کروائے اور الیکشن میں ایک اچھا ٹرن آؤٹ ہو، جب سیاسی قائدین پر حملے کیے جا رہے ہیں اور مختلف جماعتوں کو تھریٹ الرٹ جاری ہو رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں 8 فروری کو شیڈول الیکشن ملتوی کیے جائے۔

یہ قرداد پیش کرتے وقت سینیٹ کا ماحول انتہائی پراسرار معلوم ہوا کچ عینی شاہدین جن میں معروف جرنلسٹ حامد میر بھی شامل تھے کہ مطابق وہ پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ قرار داد منظور ہونے سے کچھ دیر پہلے تک قرارداد منظور کرنے والے تمام سینیٹر چیئرمین سینیٹ کے آفس میں موجود تھے اور کسی کو بھی اس حوالے سے نہیں پتا تھا کہ اس قسم کی کوئی قرارداد آنے والی ہے۔ ان کا کہنا تھا قرارداد کی حمایت کرنے والے سارے سینیٹرز کہہ رے تھے کہ سینیٹ الیکشن ملتوی نہیں ہونا چاہیے لیکن سینیٹر افنان اللہ کہہ رہے تھے مجھے لگ رہا ہے کہ کوئی سازش ہونے والی ہے۔

حامد میر نے بتایا کہ پرنس عمر بتا رہے تھے ان کے کاغذ منظور ہو گئے ہیں وہ الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں اور منظور کاکڑ بھی کہہ رہے تھے کہ الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ اقلیت کے ایک رکن خاموش بیٹھے تھے لیکن پھر اچانک چیئرمین سینیٹ اوپر چلے گئے اور آناً فاناً قرار داد پیش ہوئی، ہاؤس میں صرف 14 لوگ تھے جن میں سے 12 نے قرارداد کی حمایت کی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایوں مہمند جو اجلاس میں موجود تو نہیں تھی لیکن اطلاعات کی بنیاد پر یہی کہانی بیان کر رہے تھے۔

اس قررداد کی مخالفت میں موقع پر موجود ن لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے سخت مخالف کی اور سپریم کورٹ فیصلے کی تائید کرتے کی۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بہرہ مندتنگی نے بھی قراردادکی مخالفت نہیں کی جبکہ پی ٹی آئی کے رکن گردیپ سنگھ قرارداد پر رائے شماری کےدوران خاموش رہے۔

قرار داد پیش ہونے کے بعد خاموشی اختیار کرنے پر پیپلز پارٹی نے اپنے سنیٹر بہرہ مند تنگی کو شکاز نوٹس جاری کر دیا ہے اور اس قرارداد کی بھی شدید مخالفت کی ہے۔ شیری رحمان نے کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی الیکشن وقت پر چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں قرار داد کو سپورٹ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے ارکان کے قرارداد پر دستخط ہیں۔ سینیٹ کی ویڈیودیکھ کر بہرہ مند تنگی سے وضاحت لیں گے۔ حالات خراب ہیں مگر ہمیں آگے بڑھنا چاہی۔

شیری رحمان کی وضاحت کے علاوہ اطلاعات یہ بھی ہے کہ قرارداد منظور ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے کچھ سینیٹر سینیٹ پہنچے اور اس قراداد کی مخالفت میں بات کرنے اور ایک قرارداد پیش کرنے چاہی۔ لیکن چئیرمین سینیٹ نے ان کو موقع نہ دیتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ اس کے جماعت اسلامی کےسینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے انتخابات بروقت کرانے کے حق میں سینٹ میں قرار داد جمع کرادی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ سے چور دروزے سے جو قرارداد پاس کردی گئی وہ جمہوریت اور الیکشن کے اوپر حملہ ہے۔

قرارداد سینیٹ کی بے توقیری کی گئی ہےاور اسکے چہرے پر سیاہی مل دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی اس قرارداد کی اہمیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ کوئی احکامات الیکشن شیڈول پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سینیٹ کی الیکشن سے متعلق قرارداد پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری علی عمران شاہ کے مطابق سینیٹ کی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں کورم ہی پورا نہیں تھا، سینیٹ میں 14 ارکان بیٹھ کر ایسی قرارداد پاس نہیں کرسکتے۔

سینیٹ میں آج قرار داد پیش کی گئی ہے کہ لیکن جمعیت علم اسلام اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں کی جانب سے مسلسل اس طرح کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ چند روز قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پُرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے انتخابات کو چند روز کے لیے مؤخر کیا جائے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس سے قبل 2 اکتوبر 2023 کو بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں شدید سردیوں میں عام انتخابات کے انعقاد پر سوالات اٹھائے تھے۔

اس قرار داد میں دہشت گردی اور موسم کو بنیاد بنا کر انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ کیونکہ پچھلے مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے علاوہ ایک اور سابق رکن اسمبلی محسن داوڈ کی گاڑی پر حملے کا واقع پیش آیا۔ اور آج اس قرارد کی ہنگامہ خیزی کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ کے نتیجے میں سنی علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولانا مسعود الرحمان عثمانی جاں بحق ہوگئے۔

مولانا مسعود الرحمان سنی علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کی یہ اکا دکا واقعات بھی حقیقت ہیں۔ لیکن کیا ان کو بنیاد بنا کر الیکشن ملتوی ہونے چاہیے۔ یہ قرار داد سول سپریمیسی کی بات کرنے والے سپریم کورٹ کے لیے بھی کڑا امتحان ہوگی۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan