IMF Ki Tajaweez
آئی ایم ایف کی تجاویز
آئی ایم ایف نے پارلیمانی منظوری کے بغیر سپلیمنٹری گرانٹس جاری کرنے کے وفاقی حکومت کے اختیار کو روکنے کے لیے آئینی ترامیم کی سفارش کر دی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران استعمال کیے یا جاری کیے پارلیمانی فنڈز کے آڈٹ کرانے کی حمایت کی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ایک ٹیکنیکل مشن نے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور غیر پائیدار عوامی قرضوں سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ان تجاویز میں وزارت خزانہ کی تنظیم نو بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ابتدائی مطالبات وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو پیر کو پبلک فنانس مینجمنٹ (PFM) کے دو ہفتے کے جائزے کی تکمیل کے بعد بتائے گئے۔
اگرچہ آئی ایم ایف کی کچھ تجاویز پر نگراں حکومت عمل درآمد کر سکتی ہے، لیکن آئندہ حکومت کے لیے آئینی ترامیم جیسی اہم تجاویز کی سفارش کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے خصوصی طور پر آئین کے آرٹیکل 84 میں ترمیم کا مطالبہ کیا جو وفاقی حکومت کو قومی اسمبلی کی پیشگی منظوری کے بغیر مالی سال کے دوران سپلیمنٹری گرانٹس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
آئی ایم ایف اس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہوئے اور تجویز پیش کی ہے کہ یا تو ضمنی بجٹ جاری کرنے کے حکومتی اختیارات کو ختم کیا جائے یا پارلیمانی منظوری سے منسلک بالائی حد کو نافذ کیا جائے۔ رواں مالی سال کے لیے قومی اسمبلی نے 14.5 ٹریلین روپے کے وفاقی بجٹ کی منظوری دی، تاہم اخراجات 15.5 ٹریلین روپے تک پہنچ سکتے ہیں، جس کے لیے سپلیمنٹری گرانٹس کی ضرورت ہے۔ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ ابتدائی طور پر 7.3 ٹریلین روپے کی منظوری کے بعد قرض کی لاگت 8.5 ٹریلین روپے تک بڑھ سکتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے دوران وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا کہ آئین میں ترمیم کرنا آسان نہیں ہوگا جس کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ جس کے بعد آئی ایم ایف نے ہنگامی ضروریات کے لیے ایک ہنگامی فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی اور گزشتہ دہائی کے دوران جاری کردہ ضمنی گرانٹس کا جائزہ لینے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے خصوصی آڈٹ کی سفارش کی۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف نے سپلیمنٹری گرانٹس کے اجراء میں اختیارات کے من مانی اور ضرورت سے زیادہ استعمال کی نشاندہی کی، جس کے نتیجے میں ایسی گرانٹس کی رقم قومی اسمبلی کے منظور کردہ سالانہ بجٹ کا تقریباً 15 فیصد بنتی ہےآئی ایم ایف نے تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹس کی بھی مخالفت کی، جو بجٹ کی ساکھ کو مجروح کرتے ہوئے ایک بجٹ سے دوسرے کو بغیر کسی اضافی بجٹ کے رقم مختص کرتی ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005 میں ترمیم کی سفارش کی تاکہ عوامی قرضے کو جی ڈی پی کے 60 فیصد سے کم رکھنے کی قانونی حد کو نافذ کیا جا سکے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کے نتائج اور سفارشات پر عمل درآمد پاکستان کے مالیاتی چیلنجز کو کم کر سکتا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے، پاکستان نے IMF سے جی ڈی پی کے 0.4% کا بنیادی بجٹ سرپلس حاصل کرنے کا عہد کیا ہے، یہ ہدف 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے پہلے جائزے کے دوران تبدیل نہیں ہوا۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ پر عمل درآمد کو بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔