Haliya Intikhabat Edad o Shumar
حالیہ انتخابات اعداد و شمار
کئی مہینوں سے سیاسی عدم استحکام، مخالفین پر تشدد سمیت تمام ان الزامات کے باوجود، 8 فروری کو کروڑوں پاکستانیوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا مگر توقع سے کم لیکن وقت کی نزاکت کے حساب اچھی تعداد تھی۔ اعداد سے ظاہر ہوا کہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کے صرف 47.8 فیصد نے ووٹ ڈالا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تناسب مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا نصف فیصد بھی نہیں۔ تو یہ کہنا درست ہوگا کہ حالیہ انتخابات میں ملک کے نصف سے زائد اہل ووٹرز نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔ جو ان کے حساب سے صحیح ہو سکتا ہےاور انتخابات کی ساکھ کو مثبت رکھنے کے لیے ووٹر ٹرن آؤٹ کم سے کم 75 فیصد ہونا چاہیے جو جمہوریت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں مسلسل 60 فیصد سے نیچے رہا ہے اور کبھی بھی یہ 75 فیصد کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ کم ووٹر ٹرن آؤٹ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پورے پاکستان میں ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کم رہا۔ بلوچستان میں ٹرن آؤٹ سب سے کم یعنی 41 فیصد ریکارڈ کیا گیا، سندھ میں ٹرن آؤٹ 43.6 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں ٹرن آؤٹ 44 فیصد رہا۔ مگر اس سے حیران کن بات خواتین ووٹرزکا ٹرن آوٹ کم ہوا 2018 میں مجموعی طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ 46.89 تھا جبکہ رواں سال کے عام انتخابات میں یہ تناسب کم ہوکر 41.3 تک پہنچ گیا۔
اس کے برعکس 2018ء کے مقابلے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 56.01 تھا جوکہ رواں سال بڑھ کر 58.7 فیصد تک پہنچ گیا۔ یوں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق 17.4 فیصد پوائنٹس تک بڑھ گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں ایک کروڑ 2 لاکھ 20 ہزار کم خواتین نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ این اے 214 تھرپاکرسب سے زیادہ 70.9 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو بڑی حیرانگی کی بات ہے جبکہ سب سے کم جنوبی وزیرستان میں 16 فیصد ریکارڈ کیے گئے۔ یہاں بہت سے سوالات جنم دیتے ہیں کی ووٹ ٹرن آوٹ کیوں کم رہا؟ ووٹ کیوں ضائع ہوئے؟ ووٹر ایجوکیشن کے لیے ابھی تک کیوں اقدامات نہیں کیے گئے؟
ایسا نہیں تھا کہ انتخابی عمل کو آسان بنانے کے لیے رقم نہیں دی گئی۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے 42 ارب روپے کا بجٹ دیا گیا تھا جس کا مطلب ایک رجسٹرڈ ووٹر کے لیے 329.51 روپے مختص کیے گئے تھے۔ ٹیکس دہندگان کے فنڈز سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور ایک سال سے تیاری کے باوجود الیکشن کمیشن تمام ووٹرز کو سہولیات مہیا کرنے میں ناکام رہا۔ بزرگ اور معذور شہریوں کو ووٹ ڈالنے کی خصوصی سہولیات کا فقدان تھا۔
الیکشن کمیشن نے 8300 ہیلپ لائن بھی تشکیل دی جس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ووٹرز اپنے متعلقہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں، پولنگ اسٹیشنز اور سلسلہ نمبر کی تمام معلومات موصول کرسکتے تھے۔ بدقسمتی سے انتخابی دن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل فون سروسز بھی معطل تھیں۔ وہ لوگ جو 8300 پر ایک دن پہلے میسج نہیں بھیج پائے، اور ایک ووٹرز کے پولنگ ہرلمحے بعد تبدیل کر دیتا تھا اس طرح وہ اپنی پولنگ تفصیلات سے لاعلم رہے جس کا انہیں نقصان ہوا جبکہ بہت سے لوگ اس سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کرپائے۔ ہمارا آئی ٹی کو انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا کسی بھی جمہوری عمل کی سالمیت اس بات پر منحصر ہے کہ کاسٹ کیے گئے تمام ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جائے۔ اس کے باوجود پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اس جمہوری اصول کو کمزور کیا جاتا ہے۔
2024ء کے حالیہ انتخابات میں سامنے آنے والے حقائق بھی کچھ مختلف نہیں تھے۔ قومی اسمبلی کی 264 نشستوں میں ہوئے انتخابات میں تقریباً 20 لاکھ ووٹوں کو مسترد کیا گیا۔ یہ تعداد تشویش پیدا کرتی ہے، گیلپ پاکستان ڈیٹا اینالٹکس ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ ڈالے گئے کُل ووٹوں میں سے مسترد ووٹوں کا تناسب گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف جمہوری نمائندگی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ پاکستان کے انتخابی طریقہ کار کی افادیت اور اس کے جمہوری مستقبل کے وسیع تر اثرات کے حوالے سے بھی سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
قومی اسمبلی کے 24 حلقوں میں کامیاب امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد مسترد شدہ ووٹوں سے کم رہی۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ان میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف اضلاع شامل ہیں۔
پنجاب کے حلقہ این اے 59 تلہ گنگ/چکوال میں سب سے زیادہ مسترد ووٹ ریکارڈ کیے گئے۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار غلام عباس ایک لاکھ 41 ہزار 680 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد رومان احمد نے ایک لاکھ 29 ہزار 716 ووٹ حاصل کیے۔ جیت کا مارجن 11 ہزار 964 رہا جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 24 ہزار 547 رپورٹ کی گئی۔ اس کے بعد این اے 213 عمرکوٹ ہے جہاں 17 ہزار 571 ووٹ مسترد ہوئے۔ 137 کے قریب اضلاع میں 5 سے 10 ہزار کے درمیان مسترد ووٹ رپورٹ ہوئے۔ بتایا جارہا کہ آزاد امید وارکے مخالف جتوانے کے لیے یہ اقدمات کئے گئے مگر ہم کچھ نہیں کہ سکتے لیکن کچھ گڑبڑہے ضرور ووٹ کو کشھ ضائع ہی اسی انداز سے کیا گیا یہ بات اپنے اندر بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک پارٹی سے بلا لینابھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں کہ لوگ اس میں بھی الجھیاگیا۔
اس کی ایک وجہ ناخواندگی کی شرح بلند ہے جس کی وجہ سے یہ پولنگ کے عمل سے متعلق الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ووٹرز ایجوکیشن نہ ہوناکہ بہت سے لوگوں کو یہ تک علم نہیں تھا کہ آیا اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے مہر کا استعمال کرنا ہے یا اپنے انگوٹھے کا، یہی وجہ تھی کہ ایک قابل ذکر تعداد نے اپنے بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے بجائے اپنے انگوٹھے لگائے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خطے میں تعلیم پر کتنی کم توجہ دی جاتی ہے، اس طرح کے واقعات رونما ہونا حیران کُن نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کی تو توقع کی جانی چاہیے اور ون مین ون ووٹ کے نقصان بھی ہے اور حکمرانوں کی توجہ صرف تخت پر ہو ووٹرز کی تربیت پر نہ اور اپنے مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔