Exporters Aur Tankhwadar Tabqa
ایکسپورٹرز اور تنخواہ دار طبقہ
پاکستان میں گزشتہ 50 برس کے قریب تقریباََ ہر پاکستانی یہ الفاظ بار بار سن چکا ہے کہ ایکسپورٹرز کو سستی بجلی، گیس اور ٹیکس سے ریلیف صرف اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو اور اس پیداوار کو مسابقتی داموں بیچ کر ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا سکے۔ ہر سال بجٹ میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا یہ حلقہ اپنے لیے بھاری بھرکم مرعات حاصل کرتا ہے۔ لیکن نتیجے کے طور پر حالات اس کے برعکس ہے۔
آج نہ تو ملک میں نئی صنعتوں کی ریل پیل ہے اور نہ ہی ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا۔ ہم آج بھی اسی طرح کے حالات سے نمٹ رہے ہیں جیسے کئی دہائیوں پہلے تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کوئی ان ایکسپورٹر اور سرمایہ داروں سے یہ پوچھے گا کہ ان مرعات اور ٹیکس ریلیف کا کیا ہوا جو آپ نے پیدوار اور ملک کو بہتر بنانے کے عوض لی۔ کیا پیدوار بڑھی؟ یا ڈالر کی صورت میں زرمبادلہ کے زخائر میں میں آپ کی وجہ سے کتنا اضافہ ہوا۔
یقینا یہ سوال کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ ہر حکومت میں بھی مبینہ طور پر انہی اشرافیہ کے نمائندے شامل ہوتے ہیں جو ان کے مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے اور اس تمام تر نقصان کی بھرپائی کے لیے عام عوام کو ہر بار تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ اب ٹیکس کلیکشن کی جو رپورٹ سامنے آئی اس کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس ادا کرنے میں دولت مند ایکسپورٹرز کو بہت پیچھے چھو ڑ دیا، 243 فیصد زیادہ ٹیکس جمع کرایا۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران تنخواہ والے طبقے نے گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 38 فیصد اضافے کے ساتھ 158 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے، جو کہ ایکسپورٹرز کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس کے مقابلے میں 243 فیصد زیادہ ہے۔ دوسری طرف اس دوران ایکسپورٹرز نے 4.3 ہزار ارب روپے کمائے ہیں، اور اس کا محض ایک فیصد یعنی 46 ارب روپے بطور ٹیکس جمع کرائے ہیں، جو کہ تنخواہ دار طبقے سے 243 فیصد کم ہے، اس طرح تنخواہ والا طبقہ ٹیکس ادا کرنے والا چوتھا بڑا طبقہ بن گیا ہے۔
جولائی تا دسمبر کے دوران گزشتہ سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں تنخواہ والے طبقے سے انکم ٹیکس وصولیوں میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، 158 کا 42 فیصد یعنی 66 ارب روپے ٹیکس صوبہ سندھ میں رجسٹرڈ ملازمت پیشہ افراد نے ادا کیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کنٹریکٹرز، بینک ڈیپازیٹرز اور امپورٹرز کے بعد ٹیکس ادا کرنے والا چوتھا بڑا طبقہ بن چکا ہے، امید ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک تنخواہ والا طبقہ 300 ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع کرا دے گا۔
158 ارب روپے میں سے 42 فیصد یعنی 66 ارب روپے سندھ سے جمع کیے گئے ہیں، کراچی میں رجسٹرڈ افراد نے سب سے زیادہ 57 ارب روپے جمع کرائے ہیں جو کہ ٹوٹل ٹیکس کا 36 فیصد بنتا ہے۔ پنجاب میں رجسٹرڈ افراد نے 59.4 ارب روپے جمع کرائے ہیں، جو 38 فیصد بنتے ہیں، لاہور سے 33 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں، اسلام آباد سے 19 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں، بلوچستان سے 4.2 ارب روپے اور خیبرپختونخوا سے 9 ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔
پہلی ششماہی کے دوران مجموعی طور پر ایف بی آر نے 1.25 ہزار ارب روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کیا ہے، جو کہ مجموعی انکم ٹیکس کا 57 فیصد ہے، کنٹریکٹرز اور سروس پرووائڈرز سے ٹیکس وصولیوں میں 31 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور یہ وصولیاں 228 ارب روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ قرضوں کے منافع جات پر حاصل کردہ ٹیکس 58 فیصد اضافے سے 220 ارب روپے ہوگیا ہے، امپورٹرز نے 189 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔