Election Shafaf Na Ho Sake Wajah Kya?
الیکشن شفاف نہ ہوسکے وجہ کیا؟
2024کا الیکشن میری زندگی کا پہلا الیکشن تھا۔ جس کو کور کرنے میں خاصی دلچسپی تھی، کیونکہ اس سے پہلے سیاست میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور الیکشن ہونے کے بعد اب بھی وہی حال ہے میرا یعنی پاکستان کی سیاست میں میرے نزدیک دلچسپی رکھنا اپنے وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
الیکشن کی ایک لمبی چین لے کر چلیں یا پھر کسی ایک الیکشن کو اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو کوئی فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں لگے گا اور میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ وہ یہ کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ اپنے دائرہ کار میں نہیں رہنا چاہتا اور اس سے بڑی وجہ یہ کسی بھی ریاستی ادارے کو جزاوسزا نہیں ہے یا اس کی بڑی غلطی پر آپ ان کو پوچھ نہیں سکتے جو کہ جمہوری ممالک میں ہوتا ہے کوئی فرد چاہے وہ ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کی سزا اسے ملتی ہے یا کوئی ادارہ کل طور پر غلطی کرتا ہے یا اس ادارے کا سربراہ بھی غلطی کرتا ہے تو اس کو سزا ملتی ہے مگر پاکستان میں یہ تمام چیزیں اس کے پر عکس ہیں۔۔
یہ تمام چیزیں باتوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ہی ایسی ہیں ہم ایک مثال لے لیتے ہیں 2013 کے الیکشن کے نون لیگ کو جتوائے گئے اس کے بعد 2018 میں عمران خان کو لایا گیا یہ تمام باتیں عام لوگوں کے سامنے ہیں کس انداز میں وہ اپنی مرضی کے حکمران کو کس طرح لے کر اتے ہیں مگر سیاسی و سمیت تمام لوگ مکمل طور پر خاموش ہیں کیونکہ وہ ایک شارٹ کٹ راستے کے ذریعے اتے ہیں اور ان کو کوئی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ تمام قسم کی بے ضابطگیاں جو کہ الیکشن میں کی گئی ماضی میں یا موجودہ الیکشن جو چند دن پہلے گزرے ہیں اس میں وہ چاہے ثابت بھی ہو جائے تو بھی کسی کو سزا عدالت کی طرف سے یا کسی اور طرف سے نہیں ملے گی اور یہی ایک نئی برائیوں کے سلسلے کو جنم دیتا ہے۔
جب تک ایک ادارے کو یا سربراہ کو سزا لوگوں کے سامنے نہ دی جائے وہ اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے باز نہیں ائے گا۔ اس کی ماضی قریب میں ایک سادہ سی مثال ہی لے لیتے ہیں وہ یہ کہ وہ مثال بھی کل ہی بنی مطلب مضبوط کل ہوئی مثال کہ جب 2022 میں عمران خان کو حکومت سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو اس وقت انہوں نے شور شرابہ کیا کہ یہ مجھے جنرل باجوہ کے سازش سے ہٹایا جا رہا ہے مگر کوئی بھی سیاسی مخالف اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی کہتے تھے کہ ہم نے ہٹایا ہے مگر اس بات پر زیادہ پردہ نہ رہا اور کل ہی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے راز فاش کر دیا کہ ہم نے عدم اعتماد جرنل باجوہ اور فیض حمید کے کہنے پر لائے تھے مگر اج انہوں نے کہا کہ فیض کا نام میں نے غلطی سے لیا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ایک ریاستی ادارہ کتنا ملوس ہوتا ہے سیاست میں اور کسی کو حکومت میں لانے کے لیے وہ کس حد تک بے ضابطگی یا اپنے من پسند کے شخص کو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس بار بھی ہر بار کی طرح انہوں نے طاقت کا استعمال کرکے لوگوں کی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کی سب لوگوں نے دیکھا شام کوئی جیت رہا ہے صبح کوئی جیت گیا نتائج چار روز بعد مل رہے ہیں اور ہم اس بات سے ماضی میں جھانک سکتے ہیں کہ کیا کیا ہتھ کنڈے استعمال کرتے رہے ہوں گے جو انھوں نے اس انٹر نیٹ کے دور میں کرتے رہے ہیں کس طرح انسٹرکشن دیتے رہے ماضی میں اور اب بھی دیتے رہے ہوں گے کیونکہ مختلف صحافی اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ ہمیں جی ایچ کیو میں بیٹھا کے بارے میں سیاست دانوں کے بارے میں بتایا گیا اور ہمیں باقاعدہ طور پر بریفنگ دی جاتی کہ کہ فلاں سیاستدان ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے تو لوگوں کی ووٹوں سے ایا ہوا بندہ چاہے وہ ملک کے لیے فائدہ مند ہو یا نہ ہو کیونکہ لوگوں نے اسے پسند کیا تو اس کو انا چاہیے ہر حال میں یہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ جو اس بات کا فیصلہ کریں کہ فلاں اچھا ہے اور فلاں برا یہ لوگ تو خود ہی ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس ملک میں رہنا ہی پسند نہیں کرتے تو پھر ہم ان کو اتنے ملک کے خیر خواہ نہیں سمجھ سکتے تو لوگوں کے مینڈیٹ پر ایک بہت بڑا ڈاکہ صرف اسی ایک جھوٹے بات پر کیا جاتا کہ یہ ملک کے مفاد میں اچھا نہیں تھا۔ اور خود کا داغ دار ماضی رکھتے ہیں۔
یہ صرف ان ممالک میں ہی نہیں جہاں جمہوریت اور قانون کے ادارے کمزور ہیں۔ یہ زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ خاص طور پر، امریکہ نے پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ کے دوران بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ ریکارڈ توڑے گا۔ کیونکہ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں اور ماضی میں کی گئی قربانیوں کو یاد کروا کے یا اپنے نوجوان شہید کرواکے پھر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوتا تو ہم کسی حد تک جمہوری ممالک کی شکل بناسکتے مگر ادھر سوال کرنے اور حساب مانگنے پر پابندی ہے اور جرم عظیم ہے ہم نے یہ سرگرمیاں حال ہی میں دیکھی ہیں، اور پاکستان میں کھلے عام کی گئی ہیں۔ ایک صحافی تین چار ماہ تک لاپتہ رہا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے لیکن کوئی ان ایجنسیوں کا نام نہیں لے سکتا جنہوں نے اسے اغوا کیا۔ عدالتیں اسے باہر نہیں نکال سکیں، اور پولیس نے اسے 'تلاش' کرنے سے انکار کر دیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں تھی کہ وہ کہاں تھا، کون اسے لے کر گیا تھا اور اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ اس کی جسمانی حالت نے واضح طور پر بتایا کہ اسے آرام دہ حالات میں نہیں رکھا گیا تھا، اس کے باوجود کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدالتی ادارے نے خلا میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔
لاپتہ افراد، پر ایک طویل عرصے سے عدالتی کمیشن ہے اور برسوں سے عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین برسوں سے سڑکوں اور سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
حال ہی میں، ہم نے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے قانونی آلات اور قانون کا زیادہ صریح استعمال بھی دیکھا ہے۔ لوگوں کو الزامات اور ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے تاکہ وہ ہفتوں تک پولیس کی حراست یا عدالتی ریمانڈ میں رہیں جب وہ ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جعلی مقدمات کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ ایک مقدمے میں ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا عدالتوں سے مقدمہ خارج ہو جاتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں ایک مختلف ایف آئی آر کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ بعض اوقات، مختلف دائرہ اختیار میں ایک ہی واقعے کی متعدد ایف آئی آرز ہوتی ہیں، جس سے اس شخص کی پولیس کی تحویل اور انہیں ادھر ادھر منتقل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اگر ریاست یہ نہیں چاہتی کہ آپ آزاد رہیں اور آزادانہ طور پر حرکت کریں یا اپنے ذہن کا اظہار کریں، تو اس کے پاس قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت سارے طریقے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کو مزید آزادی یا لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ تقریباً ہر آئین یا طرز حکمرانی کے ڈھانچے میں ہر شہری کو نقل و حرکت اور اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
اس کے بعد سوشل میڈیا کا کردار ہے، جس نے حکومت کے لیے معلومات اور/یا پروپیگنڈہ پیدا کرنا اور پھیلانا آسان بنا دیا ہے۔ ریاستی مشینری آسانی سے معلومات یا پروپیگنڈے کی تیاری، دوبارہ تخلیق اور پھیلاؤ کے ذریعے کسی فرد یا ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے، کمزور اور/یا تباہ کر سکتی ہے۔ ہم نے اس کی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں۔
عوام کو ریاست کے نئے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنظیم سازی کے نئے طریقے سوچنا ہوں گے۔ کمیونٹیز کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس کے اراکین کے درمیان بات چیت کو کس طرح تشکیل دیا جا سکتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو، اگر ریاست اب بھی اسے مشکل بناتی ہے، تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افراد اور اداروں کو کمیونٹی میں دوسروں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کا پتہ لگانے میں وقت لگے گا۔ لیکن نئی حقیقت کے بارے میں گہری آگاہی پہلا قدم ہے۔