Bangladesh Ke Mutnaza Intikhabat
بنگلہ دیش کے متنازعہ انتخابات
پارلیمانی جمہوری نظام میں انتخابات کے ذریعہ ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹی کو اقتدار کی منتقلی ایک فطری عمل ہے۔ اس روایت کے برخلاف جب کوئی حکمراں ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے پر مصر ہو جائے تو اس کی یہ ہوس جمہوریت کیلئے خطرہ بن جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہمیں گزشتہ روز اس کی ایک واضح جھلک دیکھنے کو ملی۔ کل یہ الیکشن حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کی بجائے حسینہ واجد کی تاجپوشی کی تقریب لگ رہا تھا۔
بہر کیف اپوزیشن کے بغیر ہونے والے انتخابات میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ بنگلہ دیش میں ایک بار بار پھر حکومت بنانے جا رہی ہے۔ جبکہ متوقع طور پر حسینہ واجد پانچویں بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنیں گی۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے 300 پارلیمانی نشستوں میں سے کم از کم 223 نشستیں جیت لی ہیں۔
برسراقتدار عوامی لیگ کو کسی بڑے حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں نے اتوار کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ بی این پی کئی ماہ سے موجودہ حکومت کے زیرِنگرانی الیکشن کو ماننے سے انکاری تھی اور اُن کا مطالبہ تھا کہ غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ انہی مطالبات اور احتجاج کی وجہ سے انتخابات سے قبل بی این پی کے رہنماؤں اور حامیوں کی بڑی پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ یہ انتخابات اس وجہ سے بھی متناعہ تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے فقط 40 فیصد نے ان انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کیا یعنی ووٹر ٹرن آؤٹ لگ بھگ 40 فیصد رہا۔ تاہم ناقدین کو اِن اعداد و شمار کو بھی حکمراں عوامی لیگ کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے کا خدشہ ہے۔
بنگلہ دیش میں سنہ 2018 میں ہونے والے آخری عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 80 فیصد سے زیادہ تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مسلسل یہ بات کہہ رہی تھی کہ 28 اکتوبر کو حزب اختلاف کی ایک ریلی میں تشدد کے واقعات رونما ہونے کے بعد تقریباً 10 ہزار حزب اختلاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر تشدد واقعات کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک اور پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات کے بعد شروع ہونے والی حکومتی کریک ڈاؤں سے حکمراں عوامی لیگ پر سیاسی مخالفین سے جیلیں بھرنے کا الزام عائد ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے رہنما روپوش بھی تھے۔
ان حالات میں ہونے والے الیکشن متنازعہ تصور کیے جا رہے ہیں اور خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں عوامی لیگ کی یہ نئی فتح بنگلہ دیش میں درحقیقت ایک پارٹی کی حکمرانی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بات کی توقع نہیں کہ حکومت اپنے مخالفین پر جاری کریک ڈاؤن میں نرمی کرے گی۔ شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش آج ایک متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی افراط زر اور آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے لیے گئے قرضے کی شرائط کی وجہ سے حکومت کو عوامی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا۔ ان موجودہ حالات میں بنگلہ دیش پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
شیخ حسینہ پچھلے چودہ سالوں سے لگاتار اقتدار میں ہیں۔ لیکن اقتدار پر جیسے جیسے ان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ ان کے طرز عمل میں مطلق العنانیت آتی گئی۔ عوامی لیگ کی سربراہی میں بنگلہ دیش جمہوریت سے آمریت میں بدلتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ حسینہ کے طویل دور اقتدار میں بنگلہ دیش میں غریبی، بیماری اور بے روزگاری میں کافی کمی بھی ہوئی اور معاشی ترقی بھی۔ کبھی فقط زراعت پر انحصار کرنے والا ملک صنعتی میدان میں بھی آگے بڑھا ہے۔
حسینہ حکومت نے دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی پر لگام لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ حسینہ واجد حکومت پر جمہوریت کی بیخ کنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور کرپشن کے سخت الزامات ہیں۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا جو ماضی میں دو بار وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ اس وقت شدید علیل ہیں۔ اس کے باوجود حسینہ نے فرضی مقدموں میں پھنسا کر انہیں گھر میں نظر بند کر رکھا ہے۔ الیکشن میں رائے دہندگان کسی بھی سیاسی پارٹی کے نمائندوں کو منتخب کرنے کیلئے آزاد ہوتے ہیں۔
کثیر الجماعت پارلیمانی انتخابات کی خوبی یہ ہے کہ ووٹروں کو متعدد پارٹیوں اور متعدد امیدواروں میں سے اپنی پسند کی پارٹیوں کے امیدواروں کو چننے کا موقع ملتا ہے۔ اگر بیلٹ پیپر پر صرف حکمراں جماعت کے امیدواروں ہی کے نام ہوں گے تو پھر الیکشن کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ٹھیک یہی صورتحال پیدا ہوئی۔ جو صورتحال اس وقت بنگلہ دیش میں تھی۔ حسینہ واجد کی عوامی لیگ تین سو میں سے تین سو سیٹیں جیت سکتی تھی۔ کیونکہ اپوزیشن نام کی کوئی مشکل حسینہ واجد کو درپیش نہیں تھی۔ اسی لئے حسینہ نے کچھ سیٹیں اپنی اتحادی جماعتوں کے لئے چھوڑ دی اور اپنے امیدواروں کانام واپس لے لیا تاکہ ایک اپوزیشن بھی بنائی جا سکے۔
اس دھنادلی زدہ انتخابات پر سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں عام انتخابات کی بھلا کیا تک تھی؟ پارلیمانی جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ انتخابات کے قبل حکمراں اور حزب اختلاف دونوں کے لئے ماحول اور مواقع یکساں طور پر سازگار ہوں اور میدان ہموار ہو۔ موجودہ صورتحال میں تو انتخابی گول پوسٹ بالکل خالی تھی، برسر اقتدار پارٹی خواہ جتنے چاہے گول اسکور کرسکتی تھی۔ توپھر انتخابات کراکے ملک بوجھ ڈالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے خاص کر ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش کو معاشی دشواریوں کا سامنا ہے؟