Baloch Muzahreen Kahan Jaen
بلوچ مظاہرین کہا جائیں
اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے پر غم کے مارے بولچ یکجہتی کونسل کے ارکان کے ہمراہ آئے عام بلوچی جس وقت سے اسلام آباد کے قریب پہنچے ہیں اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ان سے اپنایا جانے والا رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔ ان نہتے مظاہرین کو پہلے تو اسلام آباد میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیسے تیسے ان مظاہرین میں سے کچھ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو اسلام آباد پولیس لاٹھیوں سے ان پر حملہ آور ہوگئی۔
سرد رات، ٹھنڈی سڑکوں پر ان مظاہرین کا یخ بستہ پانی سے استقبال کیا گیا۔ جس کے بعد انہیں جانوروں کی طرح لاٹھیوں سے ہانکتے ہوئے پولیس گاڑیوں میں بھر بھر کے تھانوں اور جیل میں منتقل کردیا گیا۔ بے حسی تب اپنی انتہا کو پہنچی جب پولیس نے بچوں تک کو گرفتار کر لیا۔ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ اور حکومت نے مداخلت کی تو کچھ خواتین اور بچوں کو رہائی نصیب ہوئی۔
پولیس کے اس رویے پر سول سوسائٹی، صحافی تنظیموں کے جانب سے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا، پولیس سے دو بدو درخواستیں کی گئی کہ یہ ظلم مت کیا جائے لیکن اسلام آباد کے بہادر پولیس اہلکار ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ صحافیوں سے بھی بدتمیزی کرتے رہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس متعلق آج ہونے والی سماعت میں پولیس انتظامیہ کی جانب سے پیش کیے موقف نے سننے والوں کو حیران کر دیا۔ جب پولیس اہلکاروں نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ خواتین کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ وہ خود چل کر تھانے گرفتاری دینے آئے۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے آئی ٹین ہاسٹل میں موجود بلوچ خواتین کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی تو عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد نے عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے مظاہرین کے لئے ٹرانسپورٹ کا نظام کیا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے گرفتار لوگوں کو کہاں اور کیوں بیجھا؟ وہ اسلام آباد میں جہاں گھومنا چاہیں، پرامن احتجاج کریں، یا واپس اپنے گھر جائے، ان کی مرضی ہے۔ عدالت نے آئی جی سے ایک بار پھر استفسار کیا کہ آپ نے گرفتار مظاہرین کو کہاں رکھا ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ گرفتار خواتین آئی ٹین میں خواتین کے ہاسٹلز میں ہیں۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ کل عدالت کے ساتھ غلط بیانی کی گئی کہ ہمارے پاس خواتین نہیں ہے، گرفتار خواتین گزشتہ رات وومن پولیس اسٹیشن میں تھیں۔ غلط بیانی پر وکیل درخواست گزار نے آئی جی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ایسا یہ نہیں ہوتا کہ آپ کچھ کریں گے اور وہ آگے سے چپ رہیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حامد میر سینئر صحافی ہیں ان کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ آخر ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟ اس دوران گزشتہ رات پولیس افسر کی بدتمیزی پر آئی جی اسلام آباد کا سینیر صحافی حامد میر سے کمرہ عدالت میں معافی مانگ لی۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر حامد میر صاحب کے ساتھ میرے کسی افسر نے بدتہذیبی کی تو میں معافی چاہتا ہوں، صحافی اگر آئے تو ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے، تہزیب کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ حامد میر صاحب نے کہا کہ وزراء نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سب کو رہا کیا جا رہا ہے، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ وزراء کی پریس کانفرنس کس وجہ سے تھی؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت نے کمیٹی بنائی ہے تو ان کو زبردستی بھیجنے یا مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ یہاں احتجاج کرنے آئے تھے اور آپ ان کو واپس زبردستی بیجھتے ہیں، تو کیا ہوگا؟ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عام شہری کچھ غلط کررہا ہے اس کا مطلب نہیں کہ آپ اس کو ماریں، بلکہ ان سے بات کریں، اگر غیر ذمہ داری دکھائیں گے تو نقصان صرف آپ کا نہیں پورے اس ملک کا ہوگا۔
درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا تھا کہ ایس پی نے ہمارے وکلا کو واپس بلوچستان جانے کا کہا ہے کیونکہ انہیں وزیراعظم کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں، اس معاملے پر ہماری ان سے تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی۔ وکیل نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروا دیا، کچھ اسلام آباد میں طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بیٹھا دیا بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کردیا گیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ معاملہ دیکھ کر ڈرائیورز نے بسیں چلانے سے انکار کردیا۔
اس دوران ہیومین رائٹس کمیشن کے عہدیدار احمد بٹ نے کہا کہ ہمارے بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا، جمہوری نظام میں احتجاج ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے، جو رویہ گزشتہ دو راتوں میں ہمارے بچوں بچیوں کے ساتھ کیا گیا، شاید ایسا پہلے کبھی ہوا ہو۔ چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ کنڈی صاحب آپ یہ سارا معاملہ دیکھ لیں، کوئی مسئلہ آئے تو میرے آفس سے رابطہ کرلیں۔ ، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ آج کی سماعت پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے، عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔