Azad Sahafat Per Sawalia Nishan
آزاد صحافت پر سوالیہ نشان
آج کی تحریر عمران خان ریاض کے لیے، مگر اس کا آغاز کرنے سے پہلے عباس تابش کا ایک شعر، جو ان کی چند دن پہلے کی گئی تقریر سے مشابہت رکھتا ہے۔
اپنی مٹی کا گنہگار نہیں ہو سکتا
تلخ ہو سکتا ہوں غدار نہیں ہو سکتا
ان کو پولیس نے گرفتار کیا اور وزیر قانون پنجاب نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ ان کو ضلع اٹک جو راولپنڈی ڈویژن میں آتا ہے۔ وہاں اسے گرفتار کیا گیا۔ اٹک پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مختلف قسم کی ایف آئی آر درج ہیں۔ اس لئے ان کو گرفتار کیا گیا، اب یہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا پرسن جو لوگوں کی مسائل بیان کرتا ہے۔
اس کو خود کتنے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا ہر وقت کتنے مسائل سے مقابلہ ہوتا ہے۔ مگر لوگوں کے لئے وہ سب کچھ کرتا رہتا ہے، اور بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے اسے کئی سال تک سزا جھیلنی کرنی پڑتی ہے۔ مگرہمیشہ لوگوں کی آواز بنے کی کوشش کرتا ہے، ان کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے اثرات چلے ان کو گرفتار کر لیا گیا اس طرح سے پہلے بھی کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، یہاں پر ہم بات کریں گے۔
اس گرفتاری کے اثرات کیا ہوگے سب سے پہلے تو ان کی گرفتاری پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر سوالیہ نشان ہے۔ حال اور ماضی میں آزاد صحافت کو چاہنے والے اس وقت خاموش ہیں اور تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اب عوام کو پتہ چل گیا کہ وہ لوگ آزاد صحافت بالکل نہیں چاہتے۔ بلکہ اس قسم کی صحافت چاہتے ہیں۔ جو صرف ان کو فائدہ پہنچا سکے۔
ان کی گرفتاری درحقیقت ہمارے جیسے نئے طلباء جو کہ صحافت کی فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں اور شوق رکھتے ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے مترادف ہیں اور ان کو اپنے ماتحت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کو سچ سے بے خبر رکھا جا سکے جیسے پہلے 71 سالوں سے رکھا گیا ہے۔ اس قسم کے اقدامات کرنے سے تو پھر بہتر ہے کہ پاکستان میں آزاد میڈیا کا لیبل سے لفظ "آزاد" ہٹایا جائے تاکہ اس لفظ کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو۔
آخر میں ایک شعر اگر عمران خان ریاض یہاں پر خود پڑھتے تو کمال ہو جات۔۔
ہم نے اپنے درشت لہجے سے
آمروں کا غرور توڑا ہے