Ruk Jaain
رک جائیں
جھانوی پرور کا تعلق پانی پت سے ہے جھانوی کا والد ایک غریب کسان تھا یہ ہریانوی لہجے میں بات کرتے تھے یہ لہجہ اکھڑ اور بدتمیز لہجہ ہے، اس لہجے کے لوگ اچھے سکول سے بھی پڑھ لیں تو اپنے لہجے سے پہچانے جاتے ہیں، جھانوی میں کوئی خاص بات نہیں تھی یہ عام سی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک عادت تھی یہ لوگوں کی نقل اتارتی تھی یہ اس میں قدرتی صلاحیت تھی یہ نقل اتارتی لوگ خوش ہوتے تھے جھانوی کی زندگی سکون سے گزر رہی تھی، ایک دن جھانوی نے ٹی وی ایک انگریزی کا شو دیکھا جھانوی کو اینکر کا لہجہ پسند آگیا اس نے اس کی نقل کرنا شروع کر دی اسے لفظ نہیں آتے تھے لیکن یہ ویسا سنجیدہ منہ بنا کر انگریزی لہجے میں باتیں کرتی، ہر جگہ ویسے ہی بولنے لگی شروع میں لوگ خوش ہوتے لیکن پھر تنقید کرنے لگے کہ بڑی انگریج کی نقل کرتی ہے، جھانوی نے کہا نقل نہیں میں اب خود انگریز بن جاتی ہوں جھانوی نے گھر آکر والد کا ٹیپ ریکارڈر لیا بی بی سی ریکارڈ کیا اور خبریں سننے لگی برٹش لہجہ اسے اچھا لگنے لگا قدرت نے جھانوی کو بڑی شاندار یاداشت سے نوازا تھا یہ جو لفظ سنتی اسے یاد ہو جاتا اس نے محنت کی اور تین ماہ میں جھانوی برطانوی لہجے میں انگریزی بولنے لگی یہ اس کا پہلا چمتکار تھا جس کے پیچھے تنقید کا بڑا عمل دخل تھا۔
جھانوی مقابلوں میں حصہ لینے لگی یہ ہر بار جیت کر آتی والدین خوش تھے لیکن پھر لوگوں نے تنقید شروع کی کہ صرف برطانوی لہجے میں بول سکتی ہے اس طرح تو کوئی بھی کر سکتا ہے، تب جھانوی کو علم ہوا کہ انگریزی زبان ایک ہے لیکن اس کے 9 بڑے لہجے ہیں اس نے یہ سارے لہجے سیکھنے شروع کر دیے، باپ سارے لہجوں کے کورس اور کیسٹ لا کر دیتا جھانوی پریکٹس کرتی اور ساتھ مقابلوں میں حصہ لیتی جیت جیت کر اس نے کمپیوٹر خرید لیا جس نے اس کا کام مزید آسان کر دیا یہ محنت کرتی رہی پھر لوگوں نے دیکھا کہ جھانوی نے 10 سال کی عمر میں انگریزی کے 9 لہجے سیکھ لیے، یہ انگریزی ایسے بولتی تھی لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اس کے پاس بولنے کا جادو تھا یہ سب پر سحر طاری کر دیتی تھی اس کامیابی کے پیچھے بھی تنقید تھی، حکومت نے 2015ء میں اسے ممبئی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں سرکاری افسروں سے خطاب کی دعوت دی۔ اس کی عمراس وقت صرف بارہ سال تھی اور یہ انسٹی ٹیوٹ کی ہسٹری میں افسروں سے خطاب کرنے والی پہلی بچی تھی، جھانوی نے مختلف لہجوں میں تقریر کر کے تمام بیورکریٹس کو حیران کر دیا، حکومت نے اس کے بعد اسے انسٹی ٹیوٹ کا مستقل سپیکر بنا دیا، یہ سال میں درجن مرتبہ انسٹی ٹیوٹ جاتی ہے اور نئے اور پرانے بیورو کریٹس کو اچھی انگریزی بولنے اور سمجھنے کی ٹریننگ دیتی ہے، یہ صرف یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے انگریزی کے بعد فرنچ، سپینش اور جاپانی زبان بھی سیکھ لی۔
جھانوی کا کہنا تھا "طعنے دینے والے لوگ، آپ کا مذاق اڑانے والے منفی رشتے دار بنیادی طور پر آپ کے ہیلپر ہوتے ہیں، آپ اگر ان لوگوں کو پازیٹو لیں، آپ اگر ان کی باتوں کو اپنے لیے چیلنج بنا لیں تو پھر آپ زندگی میں بہت آگے نکل جاتے ہیں یہ لوگ اگر میری زندگی میں نہ آتے تو میں ہریانہ میں گم نام زندگی گزار رہی ہوتی، یہ وہ لوگ تھے جو مجھے طعنے مارتے رہے اور میں ان کے طعنوں کے کندھوں پر چڑھ کر آگے بڑھتی رہی، مجھے لوگ شروع میں کہتے تھے "تم بڑی انگریج بن رہی ہو" اور میں نے یہ طعنہ سن کر انگریز بننے کا فیصلہ کر لیا، پھر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا "یہ کیا بڑی بات ہے، انگریزوں کی نقل ہی تو اتارتی ہے" میں نے یہ طعنہ سنا تو میں نے انگریزی سیکھ لی، پھر کسی نے کہا "یہ برٹش ایکسنٹ ہے۔ امریکی لہجے میں انگریزی بولے تو پھر دیکھیں گے" اور میں نے نو کے نو لہجے سیکھ لیے، پھر کسی نے کہا "یہ صرف انگریزی بول سکتی ہے" میں نے یہ سن کر فرنچ، سپینش اور جیپنیز بھی سیکھ لی، پھر کسی نے کہا "لفظ کچھ نہیں ہوتے، یہ تو طوطے بھی سیکھ لیتے ہیں، اصل چیز وزڈم ہوتی ہے، یہ لڑکی وہ کہاں سے لائے گی" اورمیں نے وزڈم بھی حاصل کر لی، میں موٹیویشنل سپیکر بن گئی اور پانچ پانچ سو لوگوں میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگی چناں چہ لوگ طعنے مارتے رہے اور میں آگے سے آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ میں سوا ارب آبادی کے ملک میں ونڈر گرل بن گئی"۔
یاد رکھیں تنقید دو طرح کی ہوتی ہے ایک تنقید برائے اصلاح اور دوسری تنقید برائے تذلیل پہلی قسم بڑی سادہ سی ہے آپ کو کسی شخص کی باتوں سے اختلاف ہے آپ مہذب انداز میں دلائل پر مبنی غیر محسوس انداز میں تنقید کریں جو ترقی یافتہ قوموں کا شعار ہے، تنقید کی دوسری قسم بڑی خطرناک ہے ایسی تنقید کرنے والے لوگ سیدھا ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ثبوت کوئی منطق کوئی دلائل نہیں ہوتے یہ لوگوں کی کامیابیاں دیکھ کر حسد میں مبتلا ہونے والے لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے کامیاب لوگوں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، ایسا ہی کچھ آج کل حماد صافی کے ساتھ ہو رہا ہے جس کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے ہے۔ اس کی عمر قریباً 12 یا 13 سال ہو گی اس وقت وہ سپر کڈز اسکول سسٹم میں تعلیم حاصل کررہا ہے جو پشاور، اور کیپٹل سٹی اسلام آباد میں واقع یونیورسٹی آف اسپوکن انگلش اینڈ کمپیوٹر سائنس کا ایک منصوبہ ہے۔ حماد سپر چلڈرن پروگرام (اسلام آباد) کا بھی سربراہ ہے، جہاں وہ دوسرے بچوں کی صلاحیتوں کو پالش کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے تاکہ وہ زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی پر اعتماد ہوسکیں اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر کے علاوہ، حماد صافی ایک متحرک سماجی کارکن بھی ہے۔ حماد اب تک پاکستان کی ایک سو سے زائد یونیورسٹیوں میں لیکچرز دے چکا ہے یہ ننھا پروفیسر پاکستان کا روشن مستقبل ہے حمادصافی علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفہ خودی کی بنیاد پر لوگوں کو موٹیویشنل لیکچر دیتا ہے یہ ایک ایک بات کو بڑے اچھے انداز میں سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بیرون ملک بھی یہ پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے، لیکن وہ لوگ جو ناکام ہیں جن کا کوئی نظریہ نہیں جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں وہ ننھے پروفیسر پر بے جا تنقید کرتے ہیں تنقید برائے تذلیل کا جواب حماد بڑی تحمل مزاجی سے دیتا ہے، پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں نوجوان موٹیویشنل سپیکر موجود ہیں جو ہماری قوم کی راہیں ہموار کر رہیں ہیں۔
ایسے ہی ایک نوجوان موٹیویشنل سپیکر علی احمد اعوان ہیں جن کو موٹیویشن اپنے والدین سے ملی ہے جن کا مکمل گھرانہ ہی اس فیلڈ سے وابستہ ہے، علی کے والد محترم جناب محسن نواز صاحب جو انتہائی مثبت انسان ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بولنے کی جو صلاحیت بخشی ہے وہ اس سے معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں، علی احمد اعوان بی ایس آنرز سائیکالوجی کے طالب علم ہیں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بے مقبول ہیں یہ موٹیویشن کے حوالے سے مختلف سیمنار کرتے ہیں یہ بہت اچھے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتے ہیں، علی نے صرف 12 سال کی عمر میں اپنا پہلا لیکچر ریکارڈ کیا تھا یہ تب سے مختلف موضوعات پر لیکچرز دیتے آرہے ہیں اس کے پیچھے ان کے والدین کا بہت ساتھ ہے علی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں یہ اپنی باتوں میں اپنے والدین کو ہی رول ماڈل ظاہر کرتا ہے، مستقبل میں علی پروفیشنل سائیکالوجسٹ بننا چاہتا ہے اور ساتھ ہی بہترین موٹیویشنل سپیکر بھی بن رہا ہے یہ ستارے پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ ایسے کامیاب لوگوں پر بے جا تنقید کرتے ہیں وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں حسد سے بچیں یہ انسان کو تباہ کر دیتا ہے، آپ ادبی تنقید کریں مہذب انداز میں کریں جیسے سقراط نے ایک بار کہا تھا کہ "اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ کمزور دماغ کے لوگ، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں۔ تنقید بظاہر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اگر تعمیری اور مثبت انداز میں کی جائے تو اصلاح کا سبب بنتی ہے، جبکہ بے جا اور بے محل تنقید بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا کرتی ہے، بے جا تنقید نہ کریں اس سے رک جائیں یہ بڑا خطرناک کام ہے یہ لوگوں کو ان کے مقصد سے ہٹا دیتی ہے یہ کمزور لوگوں کی جان لے لیتی ہے اس سے رک جائیں حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے نہ کریں لیکن غلط تنقید بھی نہ کریں، حماد صافی اور علی احمد اعوان کو کیا ضرورت ہے وہ اپنا وقت لگا کر ویڈیوز بناتے ہیں لیکچرز دیتے ہیں وہ تو ویسے بھی سکون سے بیٹھ کر اپنا کام کر سکتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتری کی طرف آئے جو لوگ مایوس ہیں ان کی زندگی میں چمک لائیں میں جانتا ہوں حماد اور علی احمد لوگوں کی بے جا اور غیر منطقی تنقید کو مثبت انداز میں لیتے ہیں اسی لیے وہ روز ترقی کی سیڑھی چڑھتے جارہے ہیں وہ کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن کمزور ذہن کے لوگ بے جا تنقید کر کے خود کا حسد ظاہر نہ کریں بلکہ ان نوجوانوں کا ساتھ دیں معاشرے کی بہتری کے لیے قوم کی ترقی اور پاکستان کی خوشحالی کے لیے اور مجھے امید ہے پاکستان کے نوجوان دنیا میں انقلاب برپا کریں گے۔