Murad e Rasool
مرادِ رسولﷺ
میں تاریخ کے اوراق پلٹتا ہوں دنیا کے بہترین حکمرانوں کو دیکھتا ہوں دنیا کی تاریخ کی سب سے منظم حکومت چلانے والے کو ڈھونڈتا ہوں عدل و انصاف کے پیکر کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ایک عظیم سپہ سالار کو کھوجتا ہوں تو میرا ذہن میری زبان میرا قلم صرف ایک نام بتاتا ہے اور وہ نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہے۔
نئے سال کی شروعات ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کی شہادت سے ہوتی ہے جنہیں نبی کریم ﷺ نے اپنی دعاؤں میں مانگا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت پر لکھنے کے لیے کئی مہینے لگ جائیں کئی کتابیں ترتیب دے دی جائیں تب بھی ان کی سیرت کا ایک پہلو بیان نہ ہو سکے گا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے بعد نبی کریمﷺکے ساتھ غزوات میں شامل ہوئے مکہ سے مدینہ ہجرت کا موقع آیا تو حضرت عمر ؓ بھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجمع سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، نہایت اطمینان سے طواف کیا، نمازپڑھی، پھر مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اوروہ مدینہ روانہ ہو گئے، مدینہ میں سب سے پہلا معرکہ بدر کا پیش آیا، حضرت عمر ؓ اس معرکہ میں رائے، تدبرجانبازی اورپامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کے دست وبازو رہے، عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتہ میں ان کا ماموں تھا، خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خنجر سے واصل جہنم ہوا یہ بات حضرت عمر ؓ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں قرابت ومحبت کے تعلقات سے مطلقاً متاثر نہیں ہوتےتھے، آپ کے ہاتھوں عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے۔ بدر کا میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، غنیم کے کم وبیش ستر آدمی مارے گئے اور تقریباً اسی قدر گرفتار ہوئے ؛چونکہ ان میں سے قریش کے اکثر بڑے بڑے معزز سردار تھے، اس لیے یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی، لوگوں نے مختلف رائیں دی، حضرت ابوبکر ؓ کی رائے ہوئی کہ فدیہ لے کرچھوڑدیا جائے، حضرت عمر ؓ نے اختلاف کیا اور کہا کہ ان سب کو قتل کردینا چاہیے، اوراس طرح کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیز کو قتل کرے، علی عقیل کی گردن ماریں اورفلاں جومیراعزیز ہےاس کاکام میں تمام کردوں۔ آنحضرت ﷺ کی شان رحمت نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پسندکی اورفدیہ لے کر چھوڑدیا، بارگاہ الہی میں یہ چیز پسند نہ آئی اس پر عتاب ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: مفہوم "کسی پیغمبر کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ خونریزی نہ کرلے۔
غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد غزوہ خندق، صلح حدیبیہ غزوہ خیبر، فتح مکہ سب غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اورمنکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا، یعنی 12ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اورحیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے، اسی طرح 13ھ میں شام پر حملہ ہوا اوراسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت نے انتقال کیا، حضرت عمرؓ نے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عراق، شام اور مصر فتح ہوئے، قیصر و کسریٰ کو زیر کرنے والا بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والا مسلمانوں کو خلیفہ دوم اتنےسادہ تھے کہ بیت المقدس روانہ ہوئے تو لباس پر سترہ پیوند لگے ہوئے تھے۔
خلافت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا ؛بلکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا، ابن سعد ؓ کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا ؛لیکن وہ ہمیشہ بند پڑارہتا تھا اوراس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔ حضرت عمر ؓ نے تقریبا 15ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑاخزانہ قائم کیا، دار الخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جداگانہ افسر مقرر ہوئے، مثلاً اصفہان میں خالد بن حارث ؓ اورکوفہ میں عبد اللہ بن مسعود خزانہ کے افسر تھے، صوبہ جات اوراضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کردی جاتی تھی، صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اوروظائف مقرر تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا سب سے نمایاں وصف عدل وانصاف ہے، ان کے عہد میں کبھی سرموبھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا، شاہ وگدا، شریف ورزیل، عزیزوبیگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا، ایک دفعہ عمروبن العاص ؓ کے صاحبزادے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، عمروبن العاص ؓ بھی موجود تھے، دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشا دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا، اس نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور مرتد ہوکر قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ حضرت عمر ؓ نے لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں تو اسامہ بن زید ؓ کی تنخواہ جو آنحضرت ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کے فرزند تھے، اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقررکی، عبد اللہ نے عذر کیا کہ واللہ اسامہ ؓ کسی بات میں ہم سے فائق نہیں ہیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول اللہ ﷺ اسامہ ؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان، یہودی، عیسائی سب کے لیے یکساں تھا، قبیلۂ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مارڈالا، حضرت عمر ؓ نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں، اور فرمایا کہ جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت عالم اسلام کے لیے ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھر سکتا یکم محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا دن اور خلیفہ دوم کا یوم شہادت انا للہ وانا الیہ راجعون۔