Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Kamyab Log

Kamyab Log

کامیاب لوگ

وہ پیدا ہوا ماں باپ بہت خوش تھے ناز و نعم میں پلا بڑھا تربیت کی عمر آئی والدین نے کہا بیٹا حافظ قرآن بنے گا بچہ کم عمر تھا نہیں جانتا تھا مدرسے جانے لگا ذہن معصوم تھا شروع میں آسان لگا پھر مشکلات آئیں قرآن مجید حفظ کرنا آسان کام نہیں ہوتا یہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب کردہ ہوتے ہیں انکے سینے نور سے بھر دیئے جاتے ہیں وہ اس پاک کلام کو سینے میں رکھتے ہیں یہ پاک کلام ہر انسان حفظ نہیں کرسکتا، بچے کو مشکل لگا والدین کو کہا میں نہیں کر سکتا مجھ سے یاد نہیں ہوتا مجھ پر رحم کریں والدین کا ماننا تھا کہ اگر ہمارا یہ بچہ قرآن مجید حفظ نہ کرسکا تو خاندان میں ناک کٹ جائے گی یہی ہمارا بچہ ہمیں پل صراط سے بجلی کی تیزی سے گزار کر لے جائے گا والدین نے ایک نہ مانی بچہ مجبور کیا ہو گیا وہ یہ سفر طے کرتا رہا لیکن ذہن محدود رہ گیا، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد جب دنیاوی تعلیم کی باری آئی تو بچہ مکمل خالی تھا اس نے بنیادی چیزیں نہیں پڑھی تھیں وہ دنیاوی تعلیم میں بہت پیچھے رہ گیا، اسکے ساتھی ترقی کرتے گئے وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ گیا وہ اس موڑ پر رک گیا کہ آگے جا سکا اور نہ پیچھے۔

یہ ایک بچے کی کہانی نہیں ہے ایسے ہزاروں بچے ہمارے معاشرے میں ہیں جو ایسی سچویشن کا سامنا کر رہے ہیں وجہ والدین کا زبردستی کرنا بچے سے نہ پوچھنا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اسکا دماغ کس طرف ہے، اس لحاظ سے باہر کے ملک ہم سے بہت آگے ہیں وہ بچے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہو اگر بچہ آرٹس پڑھنا چاہتا ہے تو اسے کبھی سائنس نہیں پڑھایا جاتا، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جو والدین کہتے ہیں بچہ وہی کرتا ہے بعد میں کچھ بچے ناکام ہوجاتے ہیں اور چند ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں، ہمارے ایک جاننے والے دوست ہیں انکو سنگر بننے کا بہت شوق تھا لیکن کچھ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ استاد بن گئے اب بھی اگر وہ پڑھاتے ہوں تو انکی عادات سے ایک مکمل سنگر نظر آتا ہے۔

ویلم ہنری 1955ء میں امریکہ واشنگٹن کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا۔ اسے بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آج کی طرح کمپیوٹر کی فیلڈ اتنی وسیع اور اتنے زیادہ زرائع نہ تھے لیکن پھر بھی ویلم ہنری نے محض 13برس کی عمر میں پروگرامینگ کا ہنر سیکھ لیا تھے۔ اتفاق سے دوستی بھی ایک ایسے لڑکے سے تھی جو کمپیوٹروں کا دیوانہ تھا۔ اس دوست کا نام پال ایلن تھا۔ یہ دونوں دوست ہاروڈ یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے مگر کمپیوٹروں کے شوق نے پڑھائی بیچ میں سے ہی چھوڑنے پر مجبور کیا اور آخر کار یہ دونوں دوست کالج کو خیر باد کہہ کر ہمہ وقت کمپیوٹروں کی دنیا میں کھو گئے۔ یہ دو لڑکے جنکو یونیورسٹی سے پاگل کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے یہ آنے والے وقت میں کیا کر جائیں گے کوئی نہیں جانتا تھا ان کا خاص پروجیکٹ کمپیوٹر کی ایک خاص زبان کو ترتیب دینا تھا جس سے کمپیوٹر کو چلانے میں آسانی ہو۔ ان کی محنت رنگ لائی اور انھوں نے ایک خاص "بیسک لنگویج" مرتب کر لی جس نے کمپیوٹروں کو عام کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس اہم کارنامے کے بعد پال ایلن اور ویلم ہنری البوقرق (نیو میکسکو) چلے گئے۔ یہاں انھوں نے "مائکروسافٹ کارپوریشن" کی نیو ڈالی۔ اس کے تحت وہ کمپیوٹر کے مختلف سافٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کی ساری دنیا میں بڑی مانگ تھی کیونکہ پرسنل کمپیوٹر کا استعمال دنیا میں تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

ہارڈ ویئر تو مارکیٹ میں بہت دستیاب تھے مگر سافٹ ویئر کی بڑی کمی تھی۔ اس کی زبردست مانگ کے پیش نظر دونوں دوستوں نے اس میدان میں خوب ترقی کی اور آخرکار انھیں ایک ایسا سافٹ ویئر بنانے میں کامیابی ملی جس کو ساری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انھوں نے بہت جلد بزنس کی دنیا میں استعمال ہونے والے اور تفریحی سافٹ وئیر تیار کر کے آئی بی ایم کمپنی کے علاوہ دنیا کی مختلف کمپیوٹر کمپنیوں کو بیچا جس سے ان کی آمدنی میں حیران کن اضافہ ہو گیا۔ 1984ء میں ان کی اپنی کمپنی، مائکروسافٹ کا 10کروڑ ڈالر کا بزنس محض دو برسوں میں دگنا ہو گیا۔ اس کمپنی کے حصص(شیئر) بھی اسٹاک ایکس چینج سے فروخت ہونے لگے۔ 1994ء میں بزنس کا نشانہ 2 بلین ڈالر پر پہنچ گیا جو محض ایک سال بعد 10بلین ڈالر ہو گیا۔ دنیا نے اس سے قبل آمدنی میں اضافہ کی یہ رفتار کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حتیٰ کہ تیل سے ملنے والی آمدنی کے شیوخ بھی پیچھے رہ گئے۔ ویلیم ہنری نے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اول مقام حاصل کر لیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ ویلم ہنری جسے آج دنیا بِل گیٹس کے نام سے جانتی ہے نے ہوا کے رخ کو پہچان لیا تھا۔ اس نے باقی کام چھوڑ کر اپنے ذہن کو پڑھا کہ میرا ذہن کس طرف ہے اس نے اس پر محنت کی وہ کامیاب ہو گیا۔

لیکن ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں ہمارا بچہ ابھی ٹھیک سے بیٹھنا نہیں سیکھتا اور والدین کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ڈاکٹر بنے گا انجینئر بنے گا لیکن جس نے بننا ہے اس سے نہیں پوچھتے کہ بیٹا آپ کیا بننا چاہتے ہو، یاد رکھیں بچے کی تربیت کریں اسکے شوق دیکھیں اسکو ان میں جانے دیں آپکا بچہ تاریخ میں امر ہو جائے گا، بچے پر کبھی امتحانات کے نمبرز کا دباؤ نہ ڈالیں سکول، کالجز درسگاہیں ہیں انکو تربیت گاہ بنائیں نا کہ پریشر ککر کہ بچے نے اتنے نمبرز لینے ہیں نہیں تو قیامت آجائے گی، بچہ ڈر سے رٹا لگا کر نمبرز تو لے لیتا ہے لیکن اسکا ذہن محدود رہ جاتا ہے اسکے نزدیک نمبرز ہی کامیابی کا پیمانہ بن جاتے ہیں، لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے تعلیم کا کامیابی کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے، دنیا کے دس کامیاب ترین لوگوں کی فہرست نکالیں وہ پڑھائی میں ایوریج نظر آئیں گے لیکن انہوں نے اپنا شوق اپنا ذہن پہچانا اس پر محنت کی اور وہ کامیاب ہو گئے۔

والدین سے گزارش ہے کہ بچے کی نفسیات سمجھیں وہ جس طرف جانا چاہتا ہے اسکو جانیں دیں وہ ترقی کرجائے گا لیکن اگر آپ اسکے برعکس اپنی مرضی کریں تو بچہ ذہنی مریض بن جائے گا، بچے کو بتائیں کہ پڑھائی میں فیل ہوجانے کا مطلب زندگی میں فیل ہوجانا نہیں ہوتا زندگی تو بہت خوبصورت ہے اگر آپ اسے اپنی مرضی سے گزاریں، بچے کے دوست بنیں ہر وقت اس پر تنقید یا اسکا دوسرے لائق بچوں کے ساتھ موازنہ نہ کیا کریں اس سے بچے میں بہت سی منفی سوچیں آتی ہیں بچے کا ذہن سوچنا اور بڑھنا چھوڑ دیتا ہے، بچے کو بتائیں کہ تعلیم نوکری کے لیے نہیں حاصل کی جاتی تعلیم تو تربیت کے حاصل کرتے ہیں شعور کے لیے حاصل کرتے ہیں، آپ اپنے بچے کے دوست بنیں اسکی پسند کی فیلڈ میں اسے جانے دیں تو دیکھیئے گا آپکا بچہ تاریخ بدل دے گا یہ زندگی کا ہر امتحان فتح کرے گا پھر لوگ کامیاب لوگوں کی مثال دیتے ہوئے آپکے بچے کا نام بھی لیں گے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra