Sunday, 22 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Guzre Lamhe

Guzre Lamhe

گزرے لمحے

یہ 1 جون 2020ء کا دن تھا میں فیصل آباد میں تھا صبح آسمان پر کافی بادل اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی باران رحمت کی چند بوندیں بھی زمین پر گریں، کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں کی مٹی سے بہت سے ہیرے پیدا ہوتے ہیں ایسے ہی چند شہروں میں ایک فیصل آباد بھی ہے، آپ فیصل آباد چلے جائیں اور اندرون فیصل آباد گھومنا شروع کر دیں آج بھی کسی گلی کی نکڑ پر چائے کے ہوٹل پر ٹیلیویژن پر نظریں جمائے چند بزرگ اور کسی دوسرے شہر سے روزگار کی تلاش میں آئے نوجوان ملیں گے، کسی دربار پر حاضری دینے کی نیت سے آئے بہت سے لوگ آپ کو نظر آئیں گے، آپ سارا دن گھومتے رہیں آپ تھکیں گے نہیں آپ کو کچھ نیا کچھ الگ نظر آئے گا یہاں پر آپ کو گلیوں میں گانے والے بہت سے لوکل سنگر سڑکوں پر گھومتے نظر آئیں گے آپ کو ان کی آواز میں الگ ہی چاشنی اور سر ملے گی آپ مست ہو جائیں گے۔

فیصل آباد کی بنیاد ایک انگریز لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے رکھی یہ اب پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے یہ ایک لحاظ سے بہت صاف ستھرا اور جدید شہر ہے یہ پاکستان کا مانچسٹر بھی کہلاتا ہے کپڑے کی سب سے بڑی انڈسٹری فیصل آباد میں ہے، میں سارا دن اس شہر میں گھومتا رہا اس کے آٹھ بازار گھنٹہ گھر، قیصری دروازہ، چناب کلب، ہاکی اسٹیڈیم ڈی گراؤنڈ اور باغ جناح وغیرہ دیکھتا رہا، شام ڈھلے میں منصور ملنگی روڈ سے جھنگ روڈ پر آیا تو مجھے یاد آیا کہ جھنگ روڈ کے قبرستان میں ایک قبر پر جانا تھا میں سفر طے کرتا قبرستان چلا گیا، قبرستان کے باہر پورے شہر کی مستیاں رونقیں اور شدید شور تھا، قبرستان میں مکمل سناٹا تھا حد نگاہ شہر خموشاں پھیلا تھا مجھے جس قبر کی تلاش تھی جلد ہی مل گئی میں قبر کے پاؤں والی جگہ پر بیٹھ گیا یہ تین قبریں ایک ساتھ بنی ہوئی تھیں ان کے اوپر ایک چھوٹا سا شیڈ بنا ہوا تھا جو دھوپ یا بارش روکنے کے لیے ناکافی تھا، یہ قبر اس شخص کی تھی جسے دنیا شہنشاہ قوال کہتی ہے جس نے پوری دنیا کو موسیقی کے نئے انداز میں گا کر ایک نئی پہچان دی یہ قبر نصرت فتح علی خان کی تھی جو ایک لمبے عرصے تک موسیقی کا شہنشاہ رہا تھا ملکی و غیر ملکی لوگ نصرت کو سننے آتے تھے آج بھی جب کبھی کسی صاحب نظر کے سامنے نصرت فتح علی خان کا نام لیا جاتا ہے تو وہ ادب سے نگاہیں جھکا لیتا ہے۔

سنہ 1960 کی دہائی میں فیصل آباد کے صوفی بزرگ سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار پر ایک کم عمر نوجوان نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھ رہا ہے۔ یہ بظاہر کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ پنجاب کا یہ لڑکا دنیائے موسیقی میں شہنشاہِ قوالی، بن جائے گا۔ اور لوگ اسے نصرت فتح علی خان کے نام سے یاد رکھیں گے۔

نصرت کا تعلق تو قوال گھرانے سے ہی تھا۔ اس جیسے کئی نوجوانوں کو بچپن سے ہی سُر، تال اور لے کا نصاب پڑھایا جاتا تھا، وہ چاہیں یا نہ چاہیں یہ سب سیکھنا ان کے لیے لازم تھا، لیکن نصرت بچپن سے ہی اپنے سُروں کی پختگی اور لے کی اٹھان میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہ اسے سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ سنہ 1960 کی دہائی کے شروع میں ہی اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لینا شروع کی اور ستر کی دہائی میں استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی کی، اور پوری دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنایا، نصرت کو اپنے کام سے لگن تھی یہ دل سے گاتے تھے آپ ان کا کوئی گایا ہوا کوئی کلام سن لیں آپ سکتے میں آجائیں گے۔

معروف بھارتی شاعر جاوید اختر بتاتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جایا کرتے تھے کہ وہ اس کا حصہ محسوس ہوتے تھے۔ جاوید اختر کہتے ہیں کہ میں نے اکثر دیکھا کہ نصرت فتح علی خان دیر تک خاموش بیٹھے خلا میں گھورتے رہتے اور پھر اچانک ہارمونیم اپنے قریب کرتے اور اسے بجانا شروع کر دیتے، وہ اپنے کام سے عشق کرتے تھے، نصرت فتح علی خان کو بڑے پیمانے پر اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے قوالی گلوکار کے طور پر سمجھے جاتے ہیں، انہیں "شہنشاہ قوالی" (قوالی کے بادشاہ) کہا جاتا ہے۔ نصرت فتح علی خان کو 2016ء میں ایل اے ہفت روزہ نے اب تک کا چوتھا عظیم گلوکار بتایا گیا تھا۔ ان کے پاس صوتی صلاحیتوں کی ایک غیر معمولی حد تھی اور وہ کئی گھنٹوں تک اعلیٰ درجے کی شدت میں قوالی پیش کر سکتے تھے۔

آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی دم مست قلندر مست مست، ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکا میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن دم مست قلندر مست مست، کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔ بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ڈیڈ مین واکنگ، کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ، اور نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ آپ موجودہ دور کے بڑے موسیقاروں کو سن لیں وہ چاہ کر بھی ویسا سرور نہیں ملے گا جو نصرت فتح علی خان نے اپنے انداز میں لوگوں تک پہنچایا، دنیا کا یہ عظیم شاہکار 16 اگست 1997ء کو دنیا سے رخصت ہوا ان کو فیصل آباد میں جھنگ روڈ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا یوں موسیقی کا ایک عہد تمام ہوا۔

میں قبرستان سے باہر نکلا شہر میں روشنیاں تھیں تیز ہوا چل تھی میں جھنگ روڈ پر کھڑا کافی دیر سوچوں میں گم رہا کہ ہم جو مرضی کر لیں جتنی مرضی عزت و شہرت حاصل کر لیں فرش سے عرش پر چلے جائیں ہمارے لاکھوں کی تعداد میں مداح بن جائیں ہم دنیا کی ہر آسائش ہر خوشی حاصل کر لیں لیکن پھر بھی موت ہے وہ امیر کو بھی آتی ہے غریب کو بھی بادشاہ کو بھی فقیر کو بھی اور جو مرضی کر لیں قبر میں اکیلے جانا ہے وہاں نہ ہمارا عہدہ کام آئے گا نہ دولت نہ والدین نہ اولاد وہاں پر سب سوالات کا جواب ہمیں خود ہی دینا ہے، لیکن پھر بھی ہم غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں یہ لمحے گزر جائیں گے وقت لوٹ کر نہیں آئے گا آپ نصرت فتح علی خان بن جائیں یا ایک سادہ سی زندگی گزار لیں قبر میں سکون صرف اچھے اعمال والوں کو ہو گا، جی ہاں یہ بات تو حق ہے وہاں کسی کا ساتھ میسر نہ ہو گا ہاں اگر وہاں کچھ کام آئے گا تو ہمارے اعمال ورنہ کچھ بھی نہیں۔

آج کئی مہینوں بعد اچانک گزرے لمحے یاد آئے تو آنکھوں میں غم، خوشی اور مسرت کے ملے جلے تاثرات آگئے فیصل آباد میں گزرے دن ہمیشہ یاد رہیں گے اس شہر محبت کی یادیں ہمیشہ دل میں رہیں گی یہاں کے لوگ دلوں میں گھر کر لیتے ہیں یہ اپنا بنا لیتے ہیں اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں یہ ہمیں کبھی خود سے جدا نہیں کرتے، بھول ہم بھی نہیں سکتے ایسے لوگوں کو انکی محبتوں کو اور ان کے ساتھ گزرے وقت کو بس کچھ وقت پرسکون اور خوشی سے گزرتا ہے تو کچھ اداسی سے لیکن وقت جیسا بھی ہو لمحے خوشی کے ہوں یا اداسی کے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

Check Also

Muhawray Plus

By Ali Raza Ahmed