سرگئی لیوروف کا دورہ اور نیا عالمی تناظر
ایک طویل عرصے کے بعد روس کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا اور اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان کا حالیہ دورہ، روس کے حوالے سے کافی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ اب یہ ملک علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے منظر نامے پر دوبارہ بڑے آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب روس کی سرحدیں بہت پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت اسے سوویت یونین کے نام سے زیادہ پہچاناجاتا تھا، سوویت یونین ایک عظیم عالمی طاقت تھا۔ پوری دنیا پر تونہیں لیکن آدھی دنیا پر اس کا گہرا اثر و رسوخ تھا۔ اس کے مقابلے پرامریکا اور دیگر مغربی ملکوں کا بلاک تھا۔ ان دونوں عظیم طاقتوں کے درمیان طویل عرصے تک سیاسی، معاشی اور نظریاتی جنگ جاری رہی جسے سرد جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وقت نے کروٹ بدلی، زمانہ آگے بڑھا، سوویت یونین کا انہدام ہوگیا اور ایک ملک کئی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔
سرد جنگ نے امریکا اور مغربی یورپ کو بھی غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ امریکا نے ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر اپنا مقام تو برقرار رکھا تاہم، معاشی میدان میں اس کی ترقی کا عمل بہت سست رفتار ہوگیا۔ چین جو تیسری دنیا کا ایک ملک تصور کیا جاتا تھا اس نے خود کو سرد جنگ سے الگ رکھا اور اس کے نتیجے میں وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معاشی اور فوجی طاقت بن گیا۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس زبردست بحران کا شکار ہوگیا جو اب بھی جاری ہے۔ تاہم، سوویت یونین ختم ہوگیا لیکن روس کی منفرد حیثیت اب بھی قائم ہے۔ روس جسے اب رشین فیڈریشن کہا جاتا ہے رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کا رقبہ 66 لاکھ مربع میل سے زیادہ ہے جو آباد دنیا کا 8 واں حصہ ہے۔ اس ملک کی آبادی بھی کم نہیں۔ 14 کروڑ کی آبادی والا یہ ملک یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا نواں بڑا ملک ہے۔ اس کی جی ڈی پی 1.5 ٹریلین ڈالر ہے، رشین فیڈریشن کی سرکاری زبان روسی ہے لیکن دیگر 27 زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
دنیا کا سب سے طویل ریلوے کا نظام بھی یہیں ہے جو 5700 میل طویل ہے، روس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر 152 گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے۔ جو نوجوان میکڈونلڈ برگر کے شوقین ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا میکڈونلڈ ریسٹورنٹ روس میں ہے جہاں 700 لوگ بیٹھ کرمیکڈونلڈ کے برگر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ایک اور منفرد بات یہ ہے کہ روس میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ایک کروڑ زیادہ ہے۔ تیل اور گیس اس کی معیشت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا دوسرابڑا ملک ہے۔
مذکورہ بالا وسائل اور خوبیاں رکھنے والایہ ملک خود کو معاشی مسائل سے باہر نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ عالمی سیاست میں اس کے مرکزی کردار کو تسلیم کیا جائے۔ آج کی دنیا ماضی کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ ایک زمانہ تھاکہ جو ملک زیادہ فوجی اور جوہری طاقت رکھتا تھا دیگر ملک اس کو اہمیت دینے پر مجبور ہوا کرتے تھے۔ اب یہ صورت حال ہے کہ ہر ملک معاشی ترقی کرنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ معاشی استحکام نہ ہوتو فوجی اور ایٹمی طاقت بھی کام نہیں آتی۔ سابقہ سوویت یونین اور آج کے امریکا و یورپ کی مثال سب کے سامنے ہے۔
روس کی پوری کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی معیشت کی بنیاد کو وسیع کرے تاکہ تیل اور گیس پر اس کا انحصار کم ہو۔ تیل کی تجارت گراوٹ کا شکار ہے لیکن گیس کی طلب دنیا میں موجود ہے، روس گیس کو برآمد کرناچا چاہتا ہے کیوں کہ تیل کے مقابلے میں یہ گھاٹے کے بجائے منافع کا سودا ہے۔ سرد جنگ کے دوران روس نے جدید اسلحے کے شعبے میں حیران کن ترقی کی تھی۔ اس کی خواہش اور ترجیح یہ ہے کہ وہ دفاعی سازو سامان کی تجارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے سرمایہ حاصل کرے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف بھی اس حوالے سے دنیا کے اہم ملکوں کا دورہ کرتے ہیں۔
دانش مند ملکوں کی طرح روس کو بھی علم ہے کہ دنیا کے وہ کون سے ملک ہیں جو معاشی اور تجارتی طور پر اس کے لیے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں وہ امریکا اور یورپ کی جانب دیکھنے کے بجائے وہ ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا کی طرف توجہ مرکوز کررہا ہے۔ ایک دور تھا جب چین اور سابق سوویت یونین ایک د وسرے کے نام سننے کے روادار نہیں تھے۔ ان دونوں ملکوں کی فہم و فراست دیکھیے کہ ماضی کو بھلا کر وہ اب مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
دفاعی شعبے میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو زیادہ نہیں دے سکتے لہٰذا انھوں نے غیر دفاعی کاروبار کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت 110 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے اور سال 2021 میں وہ تجارت کو 17 فیصد بڑھانے کا ہدف رکھتے ہیں۔ روس کے وزیر خارجہسرگئی لیوروف نے پاکستان آنے سے پہلے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، جہاں روس اور ہندوستان نے باہمی تجارت کو مزید وسعت دینے کے امکانات پر غور کیا۔
روس معاشی ڈپلومیسی میں مہارت حاصل کرتا جارہا ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں وہ ایک کردار ادا کرسکتا ہے لہٰذا اس نے ہندوستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ چین کے ساتھ کسی قسم کے فوجی تعاون یا معاہدے کا خواہاں نہیں ہے۔ روس کو معلوم ہے کہ ہندوستان کی وسیع منڈی کا وہ بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے۔
گزشتہ سال ان کی باہمی تجارت کا حجم صرف 10 ارب ڈالر تھا۔ جسے دونوں ملک اگلے 4 برسوں میں 25 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کو بھی علم ہے کہ روس کے پاس اعلیٰ دفاعی ٹیکنالوجی ہے اور وہ اسے خرید سکتاہے۔ ہندوستان نے روس سے 2018 میں 5.43 ارب ڈالر کا دفاعی سازوسامان خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس نے روس کو ہندوستان میں اسلحے کی صنعت میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے پاکستان سے کیا مذاکرات کیے ہیں اس کی زیادہ تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔ قیاس یہی ہے کہ اس نے بھی دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے اس خواہش کا اظہار کیا ہوگا کہ اس خطے میں سرمایہ کاری کے بے پناہ امکانات پائے جاتے ہیں تاہم، اس کے لیے علاقائی امن ناگزیر ہے۔
پاکستان کا جغرافیائی محل و قوع نہایت اہم ہے۔ اب ضرورت ہے کہ سرد جنگ کے دور کی خارجہ حکمت عملی تبدیل کرکے اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع سے معاشی فائدہ حاصل کرنے کو اولین ترجیح دی جائے۔ ایک شاندار مستقبل پاکستان کا منتظر ہے، بس اس حقیقت کو قبول کرنا ضروری ہے کہ کمزور معیشت، دفاعی طاقت کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے۔
سابق سوویت یونین کے پاس 25 ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیار تھے، اس نے ویت نام سمیت کئی ملکوں میں امریکا اور مغرب کے دانت کھٹے کردیے تھے لیکن جب معاشی بحران اور زوال آیا تو دنیا پر حکمرانی کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ روس نے تجربے سے سبق حاصل کیا ہے، اس کے تجربے سے دوسرے ملک بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ مان لیا جائے کہ اب دنیا جیو پولٹیکل نہیں بلکہ جیو اکنامک ہوگئی ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی ہے جس کے مطابق خود کو بدلنا اور ڈھالنا وقت کاناگزیر تقاضہ اور ضرورت ہے۔