صحرا میں چلے بادنسیم (1)
ڈاکٹر حبیبہ حسن ماہر اطفال ہونے کے ساتھ ایک استاد اور حقوق انسانی کی فعال کارکن بھی ہیں۔ انھوں نے جیلوں میں قید عورتوں اور بچوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے ان تھک جدوجہد کی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تعاون سے سندھ میں عورتوں کی پہلی پناہ گاہ بھی قائم کرنے میں انھوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل میں انٹرنیشنل ایگزیکٹوکمیٹی کے لیے منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون بھی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سید حسن ناصر شہید کے نام سے کون واقف نہیں، لیکن ان ہی کے ایک ہم نام ڈاکٹر حبیبہ حسن کے سب سے چھوٹے بھائی سید حسن ناصر بھی تھے۔ ان دونوں میں انسان دوستی اور روشن خیالی کی قدر مشترک تھی، وہ مظلوم اور محکوم انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے کے آرزو مند تھے۔ اس حوالے سے ایک نے کمیونسٹ نظریات کو اپنایا اور معاشرے میں استحصالی طبقات کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوگیا، جب کہ دوسرے سید حسن ناصر نے انسانوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے منصوبوں پرکام کرنا شروع کیا، اس مشن میں انھیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے۔
انھوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں بلوچستان کے عوام کے ترقی کے لیے شاندار منصوبے بنائے اور انھیں پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے اپنی جان نذرکردی۔ انھوں نے بلوچستان کے پس ماندہ عوام کے لیے منصوبے بنائے اور اپنے خوابوں کو حقیقت کی شکل دینے کے لیے بے پناہ محنت کی۔ افسوس کہ ان کی بے وقت شہادت کے بعد ان کے منصوبوں کو کسی نے آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔
ڈاکٹر حبیبہ حسن نے اپنے بھائی کے منصوبوں اور ان سے متعلق مواد کو یکجا اور محفوظ کیا جسے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر نے Desert Can Bloom کے نام سے شائع کیا۔ ڈاکٹر جعفر احمد اب انسٹٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی کاوشوں سے اس انگریزی کتاب کا ترجمہ "صحرا میں چلے باد نسیم" کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ دانشور اور ترجمہ نگار ندیم اختر نے بڑی محنت سے اس کتاب کو اردو میں منتقل کیا ہے۔
اس کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر جعفر احمد لکھتے ہیں " کتاب کا محور سید حسن ناصر مرحوم ہیں، جنھوں نے ایک پرعزم اور پرجوش نوجوان کی حیثیت سے بلوچستان کی ترقی کا خواب دیکھا تھا۔ خواب تو سبھی لوگ دیکھتے ہیں۔ ایک روشن مستقبل کے خواب، ملک کی ترقی کے خواب، اپنے لوگوں کی فلاح وبہبود کے خواب۔ مگر کم ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ توفیق حاصل ہوتی ہے یا ان کو ایسے مواقع ملتے ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرسکیں۔
سید حسن ناصر بلوچستان کے فرزند زمین نہیں تھے، لیکن ایک سچے اور مخلص پاکستانی ہونے کے ناتے وہ اپنے ملک کے سب ہی صوبوں اور سب لوگوں کو ترقی کرتا ہوا، آگے بڑھتا ہوا اور دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کے ہم رکاب ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ ان کو اچھی تعلیم میسر آئی۔ انھوں نے اپنے ملک کے اچھے اداروں میں پڑھا۔
بیرونی دنیا کی اچھی درسگاہوں سے استفادے کا بھی انھیں موقع ملا۔ بہت کم عمری میں انھوں نے ارضیات، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق علوم پر دسترس حاصل کی۔ پھر وہ اپنے اس سارے علم اور تجربے کے ہمراہ بلوچستان جا پہنچے جہاں تحقیق اور امکانات کی ایک بڑی دنیا ان کے انتظار میں تھی۔ انھوں نے اس خطے کے وسائل کے بارے میں تحقیق کی، اعدادو شمار جمع کیے۔ کم سے کم اخراجات سے کس طرح دیرپا ترقی کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں اس کا علم حاصل کیا اور پھر اس کام میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
لیکن شومئی قسمت سے سید حسن ناصر کی یہ ساری دل آویز جدوجہد ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب بلوچستان سیاسی اعتبار سے عدم استحکام اور سیاسی بحران سے گزر رہا تھا۔ اس صوبے میں پہلی مرتبہ جمہوری سیاست کی شروعات ہوئی تھیں لیکن چند ہی ہفتوں میں صوبے کی داخلی فضا اتنی مکدر ہوگئی کہ معدنی اور آبپاشی سے متعلق منصوبے تو دورکی بات، ایک عام شہری کے لیے صوبے میں جسم و جاں کی سلامتی بھی ایک کڑی آزمائش بن گئی، یہ 1970 کا عشرہ تھا، مشرقی پاکستان الگ ہوچکا تھا۔
بقیہ پاکستان کے وجود کے آگے بھی ان گنت سوالیہ نشان موجود تھے۔ ایسے میں بلوچستان میں پہلی مرتبہ سیاسی عمل کا احیاء جس قدر سیاسی بالغ نظری، برد باری اور تدبرکا متقاضی تھا بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی اس وقت کی سیاسی قیادت اس سے محروم تھی۔ مرکز اور صوبے کے درمیان ایک ایسی آویزش شروع ہوئی جس سے بچا جاسکتا تھا مگر سکون اور ٹھہرائو کی عدم موجودگی میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ یہی نہیں بلکہ بعض بیرونی عوامل نے بھی حالات کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
مرکزی حکومت نے اپنے غلط تجزیے اور غلط اندازوں کے نتیجے میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کا راستہ اختیارکیا۔ مزاحمت کاروں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکرلیا اور بلوچستان کی مزاحمتی روایت کے عین مطابق پہاڑوں میں مورچے بنالیے اور یوں صوبہ ایک بڑے عرصے کے لیے دو طرفہ پُرتشدد کارروائیوں اور عدم استحکام کی نذر ہوگیا۔
ڈاکٹر حبیبہ حسن اپنے بھائی سید حسن ناصر کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ دوستوں نے اسے مشورہ دیا "اتنی جلدی کیا ہے ذرا آرام سے زندگی گزارو" جس کے جواب میں اس کا کہنا تھا۔"میں ? بھرپورمختصر زندگی کو بے معنی طویل زندگی پر ترجیح دیتا ہوں " یہ الفاظ نامور مسلم اسکالر سائنسدان ابن سینا کے تھے جنھوں نے85 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا اور اپنے پیچھے غیر معمولی علمی کام اور انسانیت کی مفید خدمات چھوڑ گئے۔ یہ الفاظ سید حسن ناصر کے بھی ہوسکتے ہیں جوصرف 30 سال کی عمر میں المناک طور پر قتل کردیے گئے تھے۔ ناصر پاکستان اور بلوچستان کی خدمت میں انمول کام کا ایک انمٹ نقش چھوڑ گئے۔ ابھی منصوبوں کا بہت بڑا حصہ ادھورا تھا جب انھیں بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔
سید حسن ناصر10 مئی کو ہربوئی میں جامعہ بلوچستان کے لیے آبادی کے سروے کی غرض سے گئے تھے۔ ان کے ہمراہ فورڈ فائونڈیشن کی لنڈا ریڈمین اور شعبہ جنگلات کے عبدالغنی تھے۔ لنڈا ریڈمین کہتی ہیں کہ " میں سمجھنے لگی تھی کہ کوئی اس بظاہر بنجر زمین سے کیسے محبت کرسکتا ہے۔ ناصر کی آنکھوں سے اس علاقہ کو دیکھنا ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ یہ جمعہ کا بڑاخوبصورت دن تھا۔ سورج چمک رہا تھا اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ناصر کا جوش و جذبہ ناقابل بیان تھا۔
مجھے ہلکے رنگ کے مختلف قسم کے جنگلی پھولوں پر حیرت ہوئی۔ وہ پتھریلی زمین میں کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ ایک موقع پر ناصر نے کہا "مجھے اس سرزمین سے محبت ہے اور میں یہیں مرنا چاہتا ہوں۔ اس کی ترقی کے لیے اگر میری جان کے نذرانے کی ضرورت پڑی تو میں وہ بھی دینے پرتیار ہوں، میں نے جواب دیا کہ یہ بہت خوبصورت دن ہے اور میں مرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوں اور یہ کام وہ کسی اور دن کرسکتا ہے۔ پھر میں نے تصویر کھینچی اور ہم لوگ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ابھی ہم کچھ ہی دور گئے تھے کہ سامنے سڑک پر رکاوٹ نظر آئی اور چھ افراد بندوق لیے نمودار ہوئے"۔
انھوں نے خان آف قلات کے ملازموں کو جانے کے لیے کہا اور ان تینوں پر سامنے سے گولیاں چلائیں۔ ناصر اور غنی موقع پر ہلاک ہوگئے جب کہ لنڈا شدید زخمی ہوئیں۔ ان کا کیمرہ، گھڑی اور انگوٹھی بعد میں فورڈ فائونڈیشن کے حوالے کردی گئی۔
حسن ناصر اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ انتہائی خشک موسم اور پانی کی شدید قلت کے باعث بلوچستان پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح کبھی ایک زرعی معیشت کو ترقی نہیں دے سکے گا۔ انھوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیاتھا کہ بلوچستان میں ہونے والی مستقبل کی کسی بھی اہم ترقی کے تمام امکانات کا انحصار صوبے میں موجود معدنی دولت کی تلاش، ترقی اور استعمال پر ہوگا۔ حسن ناصر چاہتے تھے کہ معدنیات کی تلاش کاکام پاکستان کے لوگ سرانجام دیں۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے جامعہ خضدار میں کان کنی کو ایک خصوصی مضمون کے طور پر شامل کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس اپنے انجینئروں کی مطلوبہ افراد ی طاقت موجود ہو۔ تازہ ترین معلومات یہ ہیں کہ بلوچستان سے نکلنے والے تانبہ، کروم اور خام لوہے کو خام شکل میں چین روانہ کیا جارہا ہے۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ جب چینی کمپنیوں کو دی گئی لیز کی مدت پوری گی تو اس وقت تک خام معدنیات نکالی جاچکی ہوں گی۔ چین میں خالص کیے گئے تانبے، کروم یا لوہے میں پاکستان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
اس موقع پر مجھے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے اختر حمید خان یاد آتے ہیں جنھوں نے حسن ناصر کے قتل کی خبر سن کر کہا تھاکہ میں حسن ناصر سے محبت کرتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی بہت جلد قربان کردی۔ اس کے اندر ایک شہید کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ پاکستان یا دنیا میں کہیں بھی اس جیسے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)