یہ منافقت ہے سیاست نہیں

کچھ دن پہلے اخباروکالمز کے ذریعے ہمیں جاننے والے ایک نوجوان کسی دوردرازعلاقے سے ملنے آئے۔ ہاتھ میں پوری ایک فائل تھی جس کے اندرسی وی سمیت تعلیمی اسنادودیگرسارے ضروری کاعذات تھے۔ کہنے لگے جوزوی صاحب حلقے کے ایم پی اے اورایم این اے نے پاگل کردیاہے۔ ایک سال سے نوکری کے لئے مجھے چکروں پرچکرلگواکروہ نہ میراکام کررہے ہیں اورنہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کاکام نہیں کرسکتے۔
آپ یقین کریں ہزاروں چکرمیں نے لگادیئے ہیں۔ ایک سال سے میں ان کے گردچکرپرچکرہی لگارہاہوں۔ اب ان کے پاس جاتے ہوئے خود مجھے شرم آتی ہے لیکن انہیں کوئی احساس نہیں۔ یہ ایک نوجوان کاروناہے لیکن نہ جانے اس ملک میں ایسے کتنے نوجوان اس کرب، اذیت، امتحان، پریشانی اورعذاب سے گزررہے ہیں۔ کام نہ ہونے یانہ کرنے کاکہنے سے انسان کواتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی تکلیف اورپریشانی انسان کومفت میں چکرپرچکردینے اورلگوانے سے ہوتی ہے۔
ہمیں یادہے دس بارہ سال پہلے ہمارے ایک جاننے والے کوبھی اس نوجوان کی طرح ایک ایم این اے کے ہاتھوں ایسے ہی چکری حالات سے گزرناپڑاتھا، اس کاکوئی کام تھاجس کے لئے وہ روزانہ ایم این اے صاحب کے پاس کبھی پارلیمنٹ لاجزاسلام آباداورکبھی حلقے میں ان کے حجرے کے چکرلگاتا۔ ایم این اے صاحب کی طرف سے ہربارایک جملہ دہرایاجاتاکہ دودن میں آپ کاکام ہوجائے گا۔ جہاں تک ہمیں یادہے ایک سال تک تونہ وہ دودن آئے تھے اورنہ وہ کام ہواتھاپھرہمیں نہیں معلوم کہ اس کے بعدکیاہوا۔ لوگ ہرکسی کے پاس کام کے لئے نہیں جاتے جن سے امیداورتوقع ہوتی ہے انہی کے پاس جاتے ہیں۔
سیاستدان توسیاستدان ہمارے کئی دوستوں کوبھی ایم این اے اورایم پی اے والی یہی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ ایبٹ آبادکمپلیکس میں آئی ٹی سے وابستہ پیارے دوست شہبازجونیئراورسینئریہ دونوں اخلاق کے بہت اچھے اورانتہاء کے شریف ہیں، منہ پریہ کسی کام کی نانہیں کرتے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی طرف اگرغلطی سے بھی کوئی کام آجائے توپھربندے کوسوچکردینے سے پہلے ان کوچین نہیں آتا، شہزاداورعلی وہ ان کے ہی پیٹی بندبھائی ہیں لیکن ہم نے خوددیکھاہے کہ غریبوں اورمجبوروں کاگھنٹوں والاکام وہ منٹوں میں کردیتے ہیں۔ ویسے ہماراکوئی کام ہووہ شہبازجونیئرہوں یاسینئردونوں علی بھائی اورشہزادکی طرح ہمیشہ سیکنڈوں میں کردیتے ہیں۔
اپناتوعقیدہ ہے کہ کسی مجبوراورغریب کاکام کرنا اورمسئلہ حل کروانابھی عبادت اوربڑے ثواب کاکام ہے۔ جولوگ غریبوں اورمجبوروں کے کام آتے ہیں وہ زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں پراللہ کی خاص رحمتیں اورنعمتیں برستی ہیں۔ جولوگ غریبوں اورمجبوروں کولالی پاپ تھماتے ہیں ایسے لوگ پھرزندگی میں خودبھی دوسروں کے لالی پاپ کانشانہ بنتے ہیں۔ جوسیاستدان کامیابی کے بعدحلقے کے عوام سے چکرکرتے ہیں سیاست کے میدان میں ان کے ساتھ بھی پھرچکرپر چکرہی ہوتاہے۔ عام لوگوں کاتوخیرلیکن ہمارے سیاستدانوں کوعوام کے ساتھ ایساکھیل نہیں کھیلناچاہیئے۔
لوگ سیاستدانوں کوحلقے کی ترقی اوراپنے مسائل کے حل کے لئے ووٹ دیتے ہیں چکرکاٹنے کے لئے نہیں۔ ووٹ دینے والوں کوجائزکاموں اوران کے آئینی وقانونی حقوق کیلئے چکرپرچکردینایہ ہرگزکوئی انصاف نہیں۔ جوسیاستدان اورممبران اسمبلی کسی غریب اورمجبورسائل کاکام نہیں کرسکتے وہ عدالتوں کی طرح اس کوآئندہ کی تاریخ دینے کے بجائے اسی وقت ہی کہہ دیاکریں کہ محترم یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ماناکہ اس جملے سے سائل اورووٹرکووقتی طورپر تکلیف ضرورہوتی ہے لیکن کل اورپرسوں پرٹالنے سے اس کاجتنانقصان ہوناہے اس سے تووہ بے چارہ بچ جائے گا۔
کل پرسوں پرٹالنے سے نہ صرف اس غریب کابیڑہ غرق بلکہ خانہ بھی خراب ہوجاتاہے کیونکہ اس کے پاس جوجمع پونجی ہوتی ہے وہ روزانہ صاحب کے سلام کے لئے پہنچنے پرصرف ہوجاتی ہے اوپرسے جب اس کاکام بھی نہیں ہوتاتوپھراسے تکلیف نہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے کئی نوجوان دیکھے ہیں جنہوں نے ایک نوکری کے لئے سالوں تک سیاستدانوں اورمنتخب عوامی نمائندوں کے دفاتر، حجروں اورپارلیمنٹ لاجزکے چکرلگائے لیکن سالوں کے طواف کے باوجودان کونوکری نہیں مل سکی۔ منتخب نمائندوں کے پاس لوگ صرف نوکریوں کے لئے نہیں جاتے۔ غریب اورمجبورلوگوں کو نوکریوں کے علاوہ اوربھی سوقسم کے مسائل اورکام ہوتے ہیں۔ کہیں کسی علاقے میں پانی نہیں ہوتا، کہیں بجلی نہیں ہوتی۔
صحت اورتعلیم سمیت لوگوں کے دیگربھی بہت سے مسائل منہ چڑارہے ہوتے ہیں۔ لوگ ایک امیداورآس لیکرانتہائی مجبوری سے اپنے نمائندوں اورسیاستدانوں کے درپر جاتے ہیں بغیرکام کے کسی کے درپرکون جاتاہے لیکن جب ووٹ لینے والے یہی نمائندے اورسیاستدان سیاست کے نام پراپنے ہی عوام سے منافقت شروع کرتے ہیں توپھرغریبوں کے پاس آہیں بھرنے اوربددعائیں دینے کے سواکوئی چارہ نہیں رہتا۔ ہمارے بزرگ اکثرکہاکرتے تھے کہ مظلوم کی طرح غریب اورمجبورکی آہ بھی عرش کوہلادیتی ہے۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کوغریبوں کی بددعاؤں سے بچناچاہیئے۔
منتخب نمائندے اورسیاستدان سیاست ضرورکریں لیکن غریب عوام اوراپنے ووٹروں کے ساتھ منافقت کاکھیل نہ کھیلیں۔ جوکام ان کے بس اوروس میں ہووہ اللہ کی رضاکیلئے فوراًکردیاکریں اورجوکام ان سے نہیں ہوسکتااس کاموقع پرکہہ دیاکریں کہ یہ ہمارے بس اوروس میں نہیں۔ غریب اورمجبورلوگوں کواپنے پیچھے لگانایہ نہ سیاست ہے اورنہ کوئی خدمت بلکہ یہ وہ ظلم اورمنافقت ہے جس سے اجتناب نہ صرف حکمرانوں اورسیاستدانوں بلکہ ہم سب پر ہرحال میں لازم ہے۔

