سیاست نہیں اب عبادت
ہم سمجھ رہے تھے کہ الیکشن سے ملک میں غیریقینی اوربے چینی والی صورتحال ختم ہوجائے گی لیکن سچ پوچھیں توانتخابات کے نتائج نے بہت سوں کی بے چینی اورپریشانی میں مزیداضافہ کردیاہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آرہاکہ انتخابات میں ہواکیاہے؟ اوراب آگے کیا ہوگا؟ انتخابات کے نتیجے میں اس وقت کوئی بھی پارٹی اورجماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ تن تنہا ملک کی باگ ڈور سنبھالے۔
اقتدار کے حصول کے لئے ایک طرف جہاں بڑی سیاسی جماعتوں وپارٹیوں کی نظریں آزادامیدواروں پرہیں وہیں ان پارٹیوں کے لیڈروں نے آپس میں گٹھ جوڑکے لئے بھی رابطے شروع کردیئے ہیں۔ آزادامیدوارتوہردورمیں مکرم ہوتے ہیں لیکن حالیہ انتخابات کی کوکھ سے جنم لینے والے آزادامیدواراب کی بارکچھ زیادہ ہی مکرم ہوگئے ہیں کیونکہ نسل اورتعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حالات میں نہ صرف حکومت سازی بلکہ آئندہ کی سیاست میں بھی ان آزادامیدواروں کااہم اورکلیدی کردارہوگا۔ ویسے توعام طورپربھی آزادامیدوارجیتنے کے بعدلوگوں کی توجہ کا مرکزبنے رہتے ہیں لیکن اب کی باریہ والے آزاداس وجہ سے عوامی توجہ کے کچھ زیادہ مرکزبنے ہوئے ہیں کہ کسی کے ساتھ جانے یاکسی کے گلے ملنے میں یہ خودبھی آزادنہیں۔
الیکشن میں جیتنے والے آزادامیدواروں میں اکثریت کاتعلق تحریک انصاف سے ہے۔ اگردیکھاجائے توتحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ان امیدواروں نے قسمت بھی کیاخوب پائی ہے؟ ایک امتحان اورآزمائش سے یہ نکلتے ہیں توآگے کوئی نیاامتحان اورآزمائش پھران کاانتظارکرتاہے۔ پہلے پی ٹی آئی کے نام پرووٹ مانگنا ان کے لئے ایک کڑاامتحان تھااوراب مختصروقت میں مستقبل کی سیاست کافیصلہ کرنا ان کے لئے اس سے بھی ایک بڑاامتحان ہے۔
سیاست میں کوئی حرف حرف آخرنہیں ہوتا، پھرسیاسی پارٹیاں اوروفاداریاں تبدیل کرناویسے بھی سیاستدانوں کی ایک عادت اورروایت ہے اس لئے شائد نہیں یقینا کہ یہ والے آزاد امیدوار بھی روشن مستقبل کی خاطر نئے ٹھکانوں کے لئے اڑان بھردیں۔ پی ٹی آئی والے آزاددوسری پارٹیوں اور جماعتوں میں جانے کے لئے اڑان بھریں گے یا نہیں؟ مسلم لیگ ن
اورپیپلزپارٹی کاحکومت سازی کیلئے اتحاد اور اتفاق ہوگا یا نہیں؟ یہ بھی اہم سوالات ہیں لیکن اس وقت جوسب سے اہم سوال ہے وہ یہ کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اورسیاسی نظام ملک وقوم کے لئے کارگرثابت ہوگاکہ نہیں؟ کیا سیاسی پارٹیاں، لیڈراورسیاستدان ملک وقوم کے لئے ماضی کے اختلافات، رنجشیں اور سیاسی دشمنیاں بھلاکر آگے چلنے کی کوشش وہمت کریں گے؟ مہذب معاشروں اورترقی یافتہ ممالک میں انتخابات، اقتدار اور ہارجیت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ترقی کے سفرمیں آگے بڑھنے والے لوگ نہ توماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں اورنہ ہی ذاتی وشخصی الجھنوں میں الجھتے ہیں۔
کامیاب لیڈراورسیاستدان بھی وہی ہوتے ہیں جوکہ ملک وقوم کے لئے ذاتی مفادات واختلافات کوبھلاکرآگے بڑھتے ہیں۔ اس ملک وقوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جب بھی اتحادواتفاق کاکوئی موقع اوروقت ہاتھ آتاہے توہرکوئی ذاتی مفادات سمیٹنے کے لئے لابنگ اورحربے استعمال کرناشروع کر دیتا ہے۔ ہم پہلے بھی کہتے اورلکھتے رہے ہیں اوراب بھی کہہ ولکھ رہے ہیں کہ سیاست کی جنگ کرسی واقتدارکے لئے نہیں بلکہ ملک وقوم کے لئے ہونی چاہئیے۔
انتخابات میں لاکھوں نہیں کروڑوں عوام نے جن پارٹیوں، جن لیڈروں، جن سیاستدانوں اورجن کندھوں پررہبرورہنمائی کی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں اب ان پارٹیوں، ان لیڈروں اور سیاستدانوں کافرض بنتاہے کہ وہ خلوص دل کے ساتھ ذات و مفاد سے بالاترہوکران ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کرسی اور اقتدار یہ توعارضی چیزیں ہیں آج ہے توکل نہیں ہوں گی۔ 2018کے انتخابات میں جب عمران خان ملک کے وزیراعظم بنے تب بھی ہم نے کہا تھاکہ عمران خان آج وزیراعظم ہیں کل نہیں ہوں گے اس لئے انہیں اپنی تمام ترتوانائیاں ملک وقوم کی ترقی اورخوشحالی کے لئے صرف کرنی چاہئیں۔ جس کرسی پر2018میں عمران خان تخت نشین رہے اب اسی کرسی پر کوئی اورتخت نشین ہوگا۔
کل کوپھریہ بھی نہیں ہوگاکوئی اورتخت نشین ہوگا۔ اس کرسی پربیٹھنے اورلیٹنے والوں کانام باقی نہیں رہتا۔ نام انہی کاباقی رہتاہے جواس کرسی پربیٹھ کرملک وقوم کے لئے کچھ کرجاتے ہیں۔ اس سے پہلے کتنے آئے اورگئے لیکن عوام کووہی یاد ہوں گے جنہوں نے ملک وقوم کے لئے سچ میں کچھ کیااور کوئی قربانیاں دیں۔ جولوگ اس مسندپربیٹھ کربھی ذات اورمفادسے باہرنہیں نکلتے عوام کیا؟ تاریخ بھی پھرانہیں یادنہیں رکھتی۔
مسلم لیگ ن کے قائدمیاں نوازشریف نے اس اہم موقع پرتمام سیاسی پارٹیوں کی طرف دوستی کاہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے ایک اچھاپیغام دیاہے۔ ملک اس وقت واقعی کسی سیاسی بحران، اختلافات اورچپقلش کامتحمل نہیں۔ جن لیڈروں اورسیاستدانوں کے اگرکسی کے ساتھ کوئی ذاتی اورسیاسی اختلافات، کوئی چپقلش اوررنجشیں ہیں بھی تووہ اس کوسائیڈپرکرکے آگے بڑھیں۔ یہی وقت اورموقع ہے ملکرآگے بڑھنے اورملک وقوم کے لئے کچھ کرنے کا۔
تحریک انصاف کے بڑوں اورآزاد امیدواروں کوبھی اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر ملک وقوم کے لئے آگے بڑھنا چاہئیے۔ ایک دوسرے کوچورچورکہنے اورآپس میں دست وگریباں ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جولوگ سیاست کوذات ومفادمیں تبدیل کرکے لڑنے اورجھگڑنے پراترآتے ہیں ایسوں کاانجام پی ٹی آئی والوں سے بہترکوئی نہیں جانتا۔ اس لئے وقت اورحالات کاتقاضایہ ہے کہ ماضی کے تمام تراختلافات اور رنجشوں کوبھلاکرنیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ لوگوں نے ووٹ سیاسی لڑائیوں اورجھگڑوں کے لئے نہیں دیئے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کی راہ پرگامزن ہو۔
یہ ملک ترقی کی راہ پرتب گامزن ہوگاجب حکمران، سیاستدان اورلیڈرملک وقوم کے ساتھ مخلص اورترقی کے لئے سنجیدہ ہوں۔ حکمران اور سیاستدان اگرماضی کی طرح اب بھی اقتدار، کرسی اور ذاتی مفادات کے لئے آپس میں دست وگریباں رہیں گے توپھرحالیہ انتخابات کابھی ملک وقوم کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انتخابات پرقومی خزانے سے کروڑوں نہیں اربوں روپے صرف اس لئے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ ان انتخابات سے ملک وقوم کو کوئی فائدہ ہو۔
اب اگران انتخابات کے ذریعے ایم این اے اورایم پی اے بننے والے نمائندے اور حکمران ملک وقوم کے بجائے ذاتی وپارٹی مفادات کاتحفظ کرنے لگیں گے توپھرایسے انتخابات سے ملک وقوم کوکیافائدہ حاصل ہوگا؟ عوام نے اپناکام کر دیا ہے اب یہ منتخب نمائندوں، سیاستدانوں اورلیڈروں پر ہے کہ وہ ملک وقوم کے ساتھ اب کی بارکیاکرتے ہیں؟ سیاست سیاست کھیلنے کاٹائم پورا ہو چکا، اب عوامی خدمت کے ذریعے عبادت کرنے کاوقت شروع ہوگیاہے۔