سیاست اور ہمارا اصل حسن
یہ زبان اورالفاظ انسان کوبہت مارومات دیتے ہیں۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ خراب سے خراب زخم بھی دنوں نہیں تو مہینوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن زبان والفاظ کے لگے زخم جلد ٹھیک نہیں ہوتے بلکہ ایسے زخموں کے بھرنے میں پھرسال نہیں سالہا سال لگ جاتے ہیں اورکئی تو مرنے تک نہیں بھرتے۔
انسان کے منہ سے نکلے برے، نامناسب اورغلط الفاظ یہ دوسروں کو دکھ، درد اورتکلیف تودیتے ہی ہیں لیکن انسان کے یہی الفاظ خودانسان کے لئے بھی مصیبت، پریشانی اورتکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ یقین نہ آئے تواڈیالہ جیل میں مچھر مارنے والے کپتان کو دیکھ لیں۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ برے الفاظ اور بری زبان یہ انسان کو جہنم میں ڈالے گی، زبان، اچھی، پاک، نیک اور الفاظ مناسب، مہذب، اچھے اورسچے ہوئے توانسان اسی نیک وپاک زبان اوراچھے الفاظ کی برکت سے رب کے حضور بخشش پا کر جنت میں چلاجائے گا لیکن زبان اور الفاظ اگرانسانوں والے نہ ہوئے تو پھر کسی گڑھے میں اوندھے منہ گرنے کے سوا کوئی چارہ اورراستہ نہیں ہوگا۔
ہمارا ایک دوست تولفظ "اوئے" کو کئی سال تک بھول نہیں سکا، یہ دس پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی، شہراقتدار میں قیام کے دوران ہم روز شام کو آبپارہ مارکیٹ میں چائے کی چسکیوں پرگپ شپ کی محفل سجایاکرتے تھے، رحمت اللہ جوہم دوستوں میں سب سے زیادہ باادب اور مہذب تھے ایک بار کسی بات پر اس کی ہوٹل منیجرکے ساتھ تو تو میں میں ہوگئی۔ باتوں باتوں میں ہوٹل کے اس منیجر نے رحمت اللہ کو کہیں لفظ "اوئے" سے مخاطب کیا یا پکارا۔ یہ لفظ سنتے ہی رحمت اللہ کاچہرہ ٹماٹر کی طرح لال ہوگیاکہ آپ نے یہ اوئے کس کوکہا۔
ہم نے لاکھ سمجھایا کہ یہ کوئی گالی نہیں لیکن رحمت اللہ کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا، وہ ایک ہی بات کہتا جاتا۔ کہ اوئے کالفظ اس نے بولا کیوں ہے، یہ اگر گالی نہیں تو کوئی دعا بھی تو نہیں۔ خیررحمت اللہ اور ہوٹل منیجر کا وہ معاملہ تو ہم نے منت سماجت کرکے حل کر ہی لیا لیکن اس کے بعد کئی برس تک جب بھی ہم آبپارہ مارکیٹ میں گھومنے پھرنے جاتے تو "اوئے" کا لفظ فوراً رحمت اللہ کے سامنے آ جاتا۔
اوئے یہ کوئی گالی نہیں لیکن لفظ مناسب نہیں، پھر جب اوئے کے ساتھ زبان بھی انچ نہیں فٹ تک لمبی اور منہ ٹیڑھا ہو پھر تو واہ واہ۔ ایسے الفاظ پر اگلا پھر آپے سے باہر نہ ہو تو اور کیا ہو؟ بری زبان اوربرے الفاظ یہ انسان کوصرف جہنم کی طرف نہیں دھکیلتے بلکہ یہ دنیا کے اندر بھی چھوٹے چھوٹے جہنموں اور گڑھوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ اور بات کا طریقہ اگر ٹھیک نہ ہو تو پھرصحیح اورٹھیک بات بھی اکثرگلے پڑ جایا کرتی ہے۔ کہتے ہیں کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔
بادشاہ نے خوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلا کر اسے اپنا خواب سنایا۔ مفسر نے خواب سن کر بادشاہ سے پوچھا۔ بادشاہ سلامت کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا۔ ہاں میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔ مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔ بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہوگیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سنا اور کچھ ویسا ہی جواب دیا۔ بادشاہ نے اسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔ تیسرے مفسر کو بلوایا گیا۔ بادشاہ نے اسے اپنا خواب سنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا۔ بادشاہ سلامت کیا آپ کویقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ بادشاہ نے کہا۔ ہاں مجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔ مفسر نے کہا بادشاہ سلامت تو پھر آپ کومبار ک ہو۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت اس خواب کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اپنے گھر والوں میں سب سے لمبی عمر پائیں گے۔ بادشاہ نے مزید تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس خواب کی یہی تعبیر بنتی ہے؟ مفسر نے جواب دیا۔ جی بادشاہ سلامت اس خواب کی بالکل یہی تعبیر بنتی ہے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ سبحان اللہ۔ کیا اس بات کا یہی مطلب نہیں بنتا کہ اگر بادشاہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائے گا تو اس کے سارے گھر والے اس کے سامنے ہی وفات پائیں گے؟ جی مطلب تو یہی بنتا ہے مگر بات کہنے کا انداز اور الفاظ الگ ہے۔
سیاست سب کررہے ہیں اورسیاست میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں بھی تقریباً سب ہی کرتے ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی، اے این پی، جماعت اسلامی، ایم کیوایم اوردیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں وپارٹیوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف باتیں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں۔ سب ایک دوسرے کے خلاف لگے ہوئے ہیں لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کوسیاست میں شرافت اور اخلاقیات کا مجرم اس لئے سمجھا جا رہا ہے کہ خان نے اس ملک اورسیاست میں الفاظ کچھ مناسب متعارف نہیں کرائے۔
اوئے سے کسی کو پکارنا ہو یا فضلو کہہ کر مجمعے کو ہنسانا ہو یہ زبان، الفاظ اور طریقہ کپتان کا بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا، صرف عمران خان ہی نہیں کوئی بھی سیاستدان، کوئی بھی لیڈر، کوئی بھی افسر بلکہ کوئی بھی انسان جو لمبی زبان لیکر غلط، نامناسب اور برے الفاظ کا استعمال کرے، ایسے کسی بھی فرد اورشخص کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
سیاست، خباثت، مفادات اور کاروبار یہ سب اورساری چیزیں اپنی جگہ ہم مسلمان ہیں اور اعلیٰ وبلند اخلاق ہی ہمارا اصل حسن ہے، سیاست اور مفادات باقی رہیں یانہ لیکن یہ حسن ضرورباقی رہنا چاہئے۔