صحت انصاف کارڈ
صحت انصاف کارڈ کو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کاایک بہت بڑاکارنامہ شماراورتصورکیاجاتاہے۔ صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کی دس سالہ کارکردگی کے بارے میں اگرکپتان کے کھلاڑیوں اورتحریک انصاف کے سونامیوں سے سوال پوچھاجائے توجواب میں فوراصحت انصاف کارڈتھمادیاجاتاہے۔ پی ٹی آئی کے دامن میں صحت انصاف کارڈہی توہے جسے اوپرسے لیکرنیچے تک سب انصافین بڑے شوق اورذوق سے استعمال کرتے ہیں۔
انتخابات سے پہلے بھی تحریک انصاف کے کارکنوں سے جب پوچھاجاتاکہ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں دس سال گزارکرعوام کوکیادیا؟ تووہ سینہ چوڑاکرکے ایک ہی بات کہہ دیتے کہ صحت انصاف کارڈ۔ ساتھ یہ بھی ارشادفرماتے کہ بھلااس سے بڑابھی کوئی کارنامہ ہے؟ پی ٹی آئی کی حکومت میں صحت انصاف کارڈپر ہرشخص کاعلاج فری تھااورہرکارڈہولڈرکے اکاؤنٹ میں دس لاکھ روپے تک موجودہوتے تھے جن پروہ کسی بھی وقت فری علاج کراسکتاتھا۔
یہ بات ٹھیک کہ صحت انصاف کارڈپرلوگوں نے فری علاج کرایالیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ صحت انصاف کارڈپرجتنے لوگوں نے فری علاج کرایااس سے ڈبل بلکہ ٹرپل لوگ اسی صحت انصاف کارڈکی وجہ سے صحت سہولیات اورعلاج کے لئے دربدر، ذلیل اورخواربھی ہوئے۔ وہ جن ہسپتالوں سے ہرخاص وعام زخموں پرمرہم لیکرنکلاکرتے تھے صحت انصاف کارڈکے اجراء اورسسٹم کے بعدپھروہی ہسپتال دکھی انسانیت کے زخموں پرمرہم رکھنے کے قابل نہیں رہے۔
صحت انصاف کارڈسسٹم کے ذریعے چونکہ سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ منظورنظراورمن پسندپرائیوٹ ہسپتالوں کونوازاگیااس لئے صحت انصاف کارڈکاسب سے زیادہ نقصان صوبے میں ان سرکاری ہسپتالوں کوہواجن کوغریب لوگ آج بھی امیدکی آخری کرن سمجھ رہے ہیں۔ صحت انصاف کارڈکی ہانڈی میں جتناپیسہ جھونکاگیایہی پیسہ اگرمنظم طریقے کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں پرلگایاجاتاتوآج ان ہسپتالوں سے صحت انصاف کارڈکے بغیربھی کوئی غریب اورمجبورعلاج کے بغیرواپس نہ جاتا۔ عوامی فلاح کاکوئی چھوٹامنصوبہ ہویابڑا۔
اپناتوخیال یہ ہے کہ مخالفت کسی کی بھی نہیں کرنی چاہئیے۔ جس منصوبے، کام اوراقدام سے ملک وقوم کوکوئی فائدہ ہواس کوسراہناچاہیئے۔ اس لئے خیبرپختونخوامیں صحت انصاف کارڈکی ہم ہرگزمخالفت نہیں کررہے ہم پہلے بھی کہتے اورلکھتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کے منصوبوں کاڈائریکٹ غریب عوام کے ساتھ تعلق ہوتاہے اس لئے کسی کی حکومت اوراقتداررباقی رہے یانا۔ اس طرح کے منصوبے ہردورمیں ضرورباقی رہنے چاہئیے۔
بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی طرح صحت انصاف کارڈبھی ایک ایسامنصوبہ ہے کہ جس سے غریب عوام کوجینے اورصحت مندرہنے کاایک بڑاحوصلہ مل رہاہے۔ غربت کے ہاتھوں تماشابننے والاکوئی غریب جب بیمارہوتاہے توپھراس ایک کارڈکی وجہ سے ہی وہ جیتے جی مرنے اورتڑپنے سے بچ جاتاہے۔ صحت انصاف کارڈغربت کی تاریکیوں میں غریبوں کے لئے روشنی ہے لیکن اس روشنی کواپنی ذات سے ہی شدیدخطرات لاحق ہیں۔
صحت انصاف کارڈکے طریقہ کاراورنظام میں ایک نہیں کئی خرابیاں ہیں جن کابراہ راست ملک وقوم کونقصان ہورہاہے اس لئے اس منصوبے اورنظام کوجاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان خرابیوں کودورکیاجائے۔ ماناکہ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی حکومت کامقصد، مشن اورارادہ عوام کوفری اورمعیاری صحت سہولیات کی فراہمی کاہوگامگرانتہائی معذرت کے ساتھ صوبے میں گلی گلی اورمحلے محلے میں کھلنے والے پرائیوٹ ہسپتالوں کامقصداورمشن ہرگزیہ نہیں۔ پہلے لوگ ہسپتال اورشفاخانے انسانیت کی خدمت کے لئے کھولاکرتے تھے لیکن اب؟ اب لوگ ہسپتال اورقصاب خانے ایک کی جگہ سوکمانے کے لئے کھول رہے ہیں۔
ان ہسپتالوں میں لوگوں کاعلاج ہوتاہے یانہیں لیکن مال یہ پابندی کے ساتھ بٹوررہے ہیں۔ کچھ نہیں بلکہ اکثروبیشترہسپتالوں میں سہولیات اورمعیارکانام ونشان نہیں ہوتالیکن پھربھی غریب اورمجبورلوگوں کوان ہسپتالوں میں عالمی معیارکے مطابق بل تھمائے جاتے ہیں۔ کئی ہسپتالوں میں توتجربہ کاراورپروفیشنل ڈاکٹرزبھی نہیں ہوتے۔ اکثرہسپتالوں میں کاپی مارکہ ادویات کااستعمال ہوتاہے اسی وجہ سے تولوگ دوائیاں کھاکھاکربھی ٹھیک نہیں ہورہے۔ کے پی کے میں صحت انصاف کارڈپرلوگوں کاعلاج فری ہوگا لیکن ساتھ یہ بھی مانناپڑے گاکہ صحت کے نام پراسی صوبے میں لوٹ مارکاجوبازارگرم ہے وہ شائدکہیں اوراس طرح گرم ہو۔ جعلی ادویات کے مکروہ دھندے کوجیسے یہاں ثواب کادرجہ حاصل ہو۔
پشاورہومردان یاکوئی اور علاقہ جہاں بھی جب کوئی ایماندارڈرگ انسپکٹرچھاپہ مارتاہے توجعلی ادویات کاایک پہاڑبرآمدہوتاہے۔ جہاں جعلی ادویات کایہ حال ہووہاں دس لاکھ کاصحت انصاف کارڈکیا؟ اگرایک ایک فردکوپچاس پچاس لاکھ کاکارڈبھی جاری کیاجائے توبھی عوام کی صحت کایہی حال ہوگا۔ اس لئے حکومت اگرعوام کوصحت سہولیات کی فراہمی میں واقعی سنجیدہ ہے توپھرحکومت کوصحت انصاف کارڈسے پہلے ایسے صحت دشمنوں کونشان عبرت کے کارڈجاری کرنے ہوں گے جب تک صوبے میں ہسپتال نماقصاب خانوں کوبنداورجعلی ادویات کاسلسلہ مکمل طورپرختم نہیں کیاجاتاتب تک صحت انصاف کارڈکے خاطرخواہ فوائد سامنے نہیں آئیں گے۔ لوگوں نے قومی وعوامی صحت کوکاروباربنالیاہے، دوائیاں بیچنے والے ہیں یاانجکشن لگانے والے سب کے سب عوام کوہی ٹیکہ لگانااپنافرض سمجھ رہے ہیں۔
حکومت کوایسے عناصرکی بھی خبرلینی چاہئیے۔ اس کے ساتھ صحت انصاف کارڈکاکھاتہ، نظام اورریموٹ ہسپتال انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوتاہے، یہ بات توٹھیک کہ صحت کارڈمیں لاکھوں روپے ہوتے ہیں لیکن کارڈہولڈرکوتویہ پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کس ہسپتال میں کس بیماری اورآپریشن پرکتنے روپے خرچ ہوئے؟ یہ کارڈعوام کاہوتاہے لیکن عوام کوکارڈمیں موجودپیسوں کاپتہ تک نہیں ہوتا۔ کس ہسپتال اورکس ڈاکٹرنے کارڈسے کتنے پیسے کاٹنے ہیں یہ ہسپتال انتظامیہ اورڈاکٹرزپرہیں۔
پیسوں کی منتقلی یاکٹوتی کانظام اگرکارڈہولڈرکے ہاتھ میں ہوتاتویہ زیادہ مناسب ہوتا۔ ویسے بھی جس کاکارڈہواختیاربھی توپھراس کاہوناچاہئیے۔ صحت انصاف کارڈکانظام مخصوص ہسپتالوں اورلوگوں کے ہاتھوں میں دیناایساہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی پربلی مامورہو۔