قوم کے معماروں کوسلام
کسی نے ٹھیک کہا۔۔ قسم ہے شان وحدت کی تجھے آبادکردے گا۔۔ ادب استادکاایک دن تجھے استادکردے گا۔۔ کہاں ہیڈماسٹر عبدالنظیریر، طوطی الرحمن سواتی، محمدضابراوریاسر جیسے قوم کے معماراورکہاں ہم؟ یہ فقط اللہ کاکرم اوراساتذہ کی محنت اورمحبت ہی توہے کہ مادرعلمی کے جس ہال اورکمرے میں تعلیم سے دوری یااسباق سے روگردانی پر کسی وقت سیف الرحمن اورمحمدعرفان جیسے اساتذہ کے ہاتھوں ہم پرلاٹھیاں برساکرتی تھیں آج مادرعلمی کے اسی کمرے اوراسی ہال میں ہمارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اوربے جوڑباتوں پرچاروں اطراف سے تالیاں گونج رہی تھیں۔
واللہ ہم تواس قابل نہیں تھے، یہ سب اس خدائے وحدہ لاشریک کاکرم اورفضل ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ورنہ ہم میں بات بنانے کی صلاحیت اورہمت کہاں؟ گورنمنٹ ہائی سکول جوزمیں درجن کے قریب اساتذہ کرام کی موجودگی میں طلبہ سے خطاب یہ ہمارے لئے کسی بڑے اعزازسے کم نہیں۔ استادبادشاہ نہیں ہوتے لیکن یہ واقعی دوسروں کوبادشاہ بنادیتے ہیں۔ ہماری اس بادشاہی کے پیچھے بھی ایسے درجنوں اساتذہ کی محنت اورمحبت کی ایک پوری داستان ہے۔
ہمارے سروں پراگراساتذہ کاہاتھ نہ ہوتاتوآج ہم بھی اوروں کی طرح کہیں مکئی یاچاول کی فصل کاٹ رہے ہوتے۔ بٹگرام جیسی زرخیززمین جہاں ناموراورقدآورشخصیات اورموٹیویشنل سپیکرزکی کوئی کمی نہیں وہاں ہائی سکول کے طلبہ کے لئے بطورموٹیویشنل سپیکر ہماراانتخاب یہ رب کاخاص کرم اور اساتذہ کی ہم جیسے فقیروں سے بے لوث محبت اورچاہت کانتیجہ ہے ورنہ ہماری اتنی حیثیت کہاں کہ ہم قوم کے معماروں کے سامنے اورموجودگی میں قوم کے نونہالوں کوکوئی لیکچریادرس دے سکیں۔
یہ اللہ کاہم جیسوں ان پڑھ اورجاہلوں پرخصوصی فضل اورکرم ہے کہ اساتذہ کرام سے پیاراور محبت کارشتہ اورتعلق ابھی تک قائم ہے اسی محبت اورتعلق کی وجہ سے ایک دوحرف ہم بھی لکھ اوربول لیتے ہیں۔ استادروحانی باپ ہوتاہے، پھرحضرت علیؓ کاقول ہے کہ میں نے جس سے ایک لفظ بھی پڑھااورسیکھاوہ میرااستادہے، استادکابہت بڑامقام ہے، جن لوگوں نے استادکے مقام کوپہچاناوہ لوگ پھرکبھی ناکام نہیں ہوئے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم استادکوروحانی باپ کادرجہ دینے کے بجائے اسے اپنااورسرکارکاایک نوکروغلام سمجھتے ہیں۔
ہمارے نوجوان جب سے بے ادب اورگستاخ بن گئے ہیں تب سے تعلیم کے میدان میں ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جانے لگے ہیں، پہلے بھی یہی سکول اوریہی استادہوتے تھے، شہرکیا؟ گاؤں اوردیہات میں پڑھنے والے غریب طالب علم بھی ٹیچر، ڈاکٹراورانجینئربن کرسکولوں سے نکلتے تھے۔ جوزجوہماراآبائی گاؤں وعلاقہ ہے، یہ شہرسے کافی دوراورآج بھی پسماندہ ہے، اس جدیدسائنسی وتعلیمی دورمیں بھی یہاں نہ کوئی کالج ہے اورنہ بچیوں کے لئے کوئی گرلزہائی سکول۔ اب خوداندازہ لگائیں پندرہ بیس سال پہلے یہاں تعلیمی سہولیات کی کیاحالت ہوگی؟
سڑکوں کی حالت آج بھی ایسی ہیں کہ جن پربمشکل جیپ گاڑیاں چلتی ہیں۔ پھربھی اگرآپ دیکھیں تواس پسماندہ علاقے وگاؤں میں پندرہ بیس سال پہلے پڑھنے والے آج آپ کوٹیچرز، کلرک اورپولیس افسروں کے روپ میں نظرآئیں گے۔ اس وقت سکولوں کی آج کی طرح نہ سنگ مرمرسے بنی یہ عمارتیں تھیں، نہ گول کرسیاں اورنہ ہرسٹوڈنٹ کے آگے میز، پھربھی ان جھونپڑی نماسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ نہ صرف امتحانات میں ٹاپ کرجاتے بلکہ اکثراعلیٰ تعلیم کی دوڑمیں بھی آگے بہت آگے نکل جاتے۔
اس وقت یہ جدیدسہولتیں تو نہیں تھیں لیکن استاداورشاگردکاآپس میں ادب اورمحبت کا ایک ایسا رشتہ تھاکہ جس کی بنیادپرشاگردمشکل سے مشکل امتحان بھی آسانی کے ساتھ پاس کرجاتے۔ اپنے بڑوں اوربزرگوں سے بچوں کوپہلاپیغام اورسبق ہی یہ ملتاکہ استادکاادب واحترام کرنانہیں توپھرساری زندگی ہاتھ ملتے رہوگے۔ ہمیں نہیں یادکہ سکول کے زمانے یامابعدہمارے کسی ساتھی نے استادکے سامنے کبھی اونچی آوازمیں بات کی ہو۔ سکول زمانے کے ساتھی اوردوست آج بھی اگرکسی استادکے پاس ہم اکٹھے ہوجائیں تواب بھی آدب کے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ہم سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔
جس راستے پرہمارے کوئی استادآتے یاجاتے ہوتے توہم وہ راستہ ہی تبدیل کرلیتے۔ استادجس محفل اورمجلس میں بیٹھے ہوں سوال ہی پیدانہ ہوتاکہ ہم اس محفل اورمجلس کے قریب سے بھی گزریں۔ استادکے اسی ادب واحترام کانتیجہ ہے کہ بغیرکسی سخت محنت اورمشقت کے ہم بھی دوحرف لکھنے اورپڑھنے کے قابل ہوگئے۔ آج کے نوجوان اوربچے اگراساتذہ کرام کے ادب واحترام کوملحوظ خاطررکھ کرتعلیم حاصل کریں توکوئی مشکل نہیں کہ یہ انہی گاؤں اوردیہات سے آگے جاکرٹیچر، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، وکیل، پولیس اوربڑے افسرنہ بنیں۔
پہلے زمانے میں غربت تھی، ہرجگہ سکول اورکالج بھی نہیں تھے، اس وجہ سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کوتعلیم کے زیورسے آراستہ نہیں کرسکتے تھے، اب ہرماں باپ کی پہلی چاہت ہی یہ ہے کہ ان کے بچے تعلیم اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ آج والدین پیٹ کاٹ کربچوں کوتعلیم دلوارہے ہیں، ہرماں اورباپ کی یہ خواہش ہے کہ ان کابچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اب بھی اگرکوئی بچہ نہیں پڑھتایاآگے نہیں بڑھتاتوپھراس سے بڑی بدقسمتی اورکیاہوگی؟ ہائی سکول جوزدورے کے موقع پرطوطی الرحمن سواتی، فیصل محمد، محمدضابر اوریاسراستادنے بتایاکہ اس باربورڈامتحان میں ہمارے سکول کارزلٹ سوفیصدآیاہے، یہ جان کربہت خوشی ہوئی کہ ان اساتذہ کی پرخلوص محنت سے بچے اب تعلیم پرتوجہ دینے لگے ہیں۔
اللہ کرے ہیڈماسٹر عبدالنظیریر، طوطی الرحمن سواتی، محمدضابر، محمدیاسر، محمدنذیر، محمدفیصل، سیف اللہ، نیازمحمد، قاری گل رحمان اورمحمدآمین جیسے اساتذہ کاسایہ ان بچوں کے سروں پرقائم ودائم رہے تاکہ یہ بچے بھی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچراورسائنسدان بن کرملک وقوم کی خدمت کافریضہ سرانجام دے سکیں۔
جوزجوکھڈلو، راجمیرہ، گھٹ سیری، بیڑسمیت درجنوں گاؤں اوردیہات کامرکزہے، ہزاروں کی اس آبادی کے لئے پورے علاقے میں کوئی گرلزہائی سکول نہیں، کئی علاقوں میں تو گرلزپرائمری سکول بھی نہیں، حکومت کوچاہئیے کہ اس علاقے میں بچوں کے ساتھ بچیوں کے تعلیم پربھی خصوصی توجہ دے، ایم این اے اورایم پی اے تواس وقت ہے نہیں تحصیل چیئرمین اورڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بٹگرام جوزمیں گرلزہائی سکول کے قیام کے لئے کرداراداکریں تاکہ علم کاچراغ شہروں کے ساتھ دیہات اوردوردرازعلاقوں میں بھی جلتارہے۔