کچے والوں کا پکا علاج

کچے والے کچھ زیادہ پکے ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں لوٹ مار اور اغواء برائے تاوان کی جو رفتار اس وقت انہوں نے پکڑی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ان پر اگر فوری طور پر آہنی ہاتھ نہ ڈالا گیا تو پھر یہ اتنے پکے ہو جائیں گے کہ اس ملک کا کوئی بھی شخص اور فردان کے شر اور ظلم سے محفوظ نہیں رہے گا۔ ویسے ان کے سیاہ کرتوتوں سے تو اب بھی کوئی محفوظ نہیں۔
ان ظالموں نے پورے ملک میں گینگ اور طرح طرح کے گروہ بنا کر اپنے پر پھیلا دیئے ہیں۔ اپنے انہی کارندوں اور سہولت کاروں کی مدد سے یہ کچے میں بیٹھ کر ملک کے کسی بھی کونے سے مزدوروں، محنت کشوں، تاجروں، ٹیچروں، ڈاکٹروں اور طالب علموں کو سبز باغات دکھا کر نوکری، تجارت، شادی اور اچھے مستقبل کے چکر میں کچے پہنچا دیتے ہیں۔ آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجا کر کچے پہنچنے والے سادہ لوح لوگ پھر ان ظالموں کے شکنجے سے آسانی کے ساتھ باہر نہیں نکل سکتے۔
کچے میں تو ان کی اپنی حکمرانی اور بادشاہت ہے، گویا اپنی بدمعاشی کے بل بوتے پر انہوں نے ریاست کے اندر ایک قسم کی ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے اور علاقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص جب ایک بار ان کے پاس پہنچ جاتا ہے تو وہ پھر بھاری تاوان دیئے بغیر ان کے ظلم خانے سے زندہ و سلامت واپس نہیں لوٹتا۔ اس دور میں جہاں لوگوں کے لئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہے، پچاس اور اسی لاکھ روپے تاوان کوئی کہاں سے دے سکتا ہے؟
موجودہ حالات میں تو سو میں کوئی ایک بندہ تاوان دینے کا قابل ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے جن کی اپنی زندگیاں پہلے ہی تاوان پر گزر رہی ہیں ایسے میں وہ کسی کو کیا تاوان دیں گے؟ تاوان نہ دینے پر نہ جانے اب تک ان ظالموں نے کتنے غریبوں کے گلے کاٹے ہوں گے اور کتنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ غائب کر دیا ہوگا؟ دو سال پہلے انہوں نے ہمارے آبائی ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کو سستی گاڑی کا جھانسہ دے کر اپنے کارندوں کے ذریعے رحیم یار خان بلایا جہاں سے انہیں اغواء کرکے کچے پہنچایا۔ ان نوجوانوں کے پاس جو کچھ تھا وہ تو انہوں نے اسی وقت لے لیا۔ پھر ان کو زنجیروں میں جکڑ کر ان کے رشتہ داروں اور لواحقین سے تقریباً ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔
بٹگرام میں اکثر غریب لوگ مقیم ہیں، جو محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کرکے اپنا نظام چلا رہے ہیں۔ یہ جو نوجوان اغواء ہو کر کچے پہنچے تھے ان کے لواحقین کے پاس بھی تاوان دینے کے لئے پیسے نہیں تھے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے لوگوں نے مسجدوں میں چندہ اور اعلانات کرکے ان کے لئے پیسے جمع کئے۔ بڑی کوششوں اور ادھر ادھر رابطوں کے بعد ستر اسی لاکھ روپے دے کر ان نوجوانوں کو ان ظالموں کے چنگل سے بازیاب کرایا گیا۔
اب دو سال بعد ان ظالموں نے بٹگرام کا ایک اور نوجوان اٹھایا جو پچھلے ڈیڑھ دو مہینے سے ان کی قید میں ہے۔ سر سے پائوں تک وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور یہ اس پرمسلسل تشدد کرکے اس کو زندہ چھوڑنے کے لئے ساٹھ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جمیل یہ بٹگرام کے علاقے میرانی کا رہائشی ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ اسلام آباد میں ایک تندور پر کام کرکے گھر کا نظام چلا رہے تھے۔ تندور پر کام کرنے والے ایک مزدور کی کتنی تنخواہ ہوگی اور اس نے کیا کمایا ہوگا؟ یہ سب جانتے ہیں کہ دیہاڑی لگانے والے مزدوروں اور محنت کشوں کے پاس کیا جمع پونجی ہوتی ہے؟ جمیل کیا؟ جمیل کے گھر والوں نے بھی ساٹھ لاکھ روپے کبھی خواب میں نہیں دیکھے ہوں گے۔
اب خود اندازہ لگائیں ایسا شخص اور ایسے لوگ جن کی اپنی زندگی روز کی دیہاڑی پر گزر رہی ہے وہ کچے والوں کو تاوان دینے کے لئے ساٹھ لاکھ روپے کہاں سے لائیں گے؟ یہ تو ایک بٹگرام کے جمیل کی بات ہے نہ جانے کچے کے ان ظالموں کے پاس اور کتنے جمیل زنجیروں میں جکڑے ہوئے پڑے ہوں گے۔ کچے کے ان مٹھی بھر درندوں نے پورے ملک کا تماشا بنایا ہوا ہے۔ آئے روز یہ کسی نہ کسی کو اغواء کرکے اس کی ویڈیوجاری کرتے ہیں۔ عام لوگ کیا؟
اب تو پولیس بھی ان سے محفوظ نہیں۔ ان کی وجہ سے اب تک کئی پولیس جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ عام لوگوں کو تاوان کے لئے اغواء کرتے ہیں اور پولیس اہلکاروں کو ڈائریکٹ نشانہ بناتے ہیں۔ کوئی بھی گینگ، گروہ اورفردچاہے وہ کچے کا ہو یا پکے کا۔ وہ ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں۔ مانا کہ کچے والے یہ درندے پنجاب اور بلوچستان کے بارڈر سے لیکر سندھ کے کئی اضلاع پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن ریاست کے لئے کچے کا یہ پورا علاقہ ایک دن میں طاقت سے دھو کر ان ظالموں سے پاک اور خالی کرانا کوئی مشکل نہیں۔ کچے والوں سے بھی بڑے بڑے ڈاکو قصہ پارینہ بن گئے یہ پھر کس کھیت کی مولی ہے کہ یہ ریاست سے بچ نکلیں گے۔
ریاست کیلئے ان کا کام تمام کرنا دنوں نہیں فقط چند گھنٹوں کا کام ہے شرط صرف یہ ہے کہ حکمران اس کے لئے سنجیدہ ہوں۔ جب تک ریاست ان کے خلاف سخت قدم نہیں اٹھاتی یہ ظالم اور درندے اسی طرح نہ صرف ملک کے کونے کونے سے لوگوں کو اٹھائیں گے بلکہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور قومی محافظوں کو بھی نشانہ بناتے رہیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ ان درندوں کے خلاف فوری آپریشن کا آغاز کرکے ان کے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کر دیا جائے تاکہ اس ملک کے بے چارے مزدور، محنت کش اور غریب لوگ آرام و سکون اور آزادی سے زندگی گزار سکیں۔

